
پیرس (بین الاقوامی خبرنامہ)
فرانس کی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہو گئی ہے جہاں صدر ایمانوئل میکرون نے موجودہ سیاسی بحران کے پیشِ نظر سابق وزیر دفاع سبسٹیئن لیکورنو کو ملک کا نیا وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے۔ یہ تقرری ایسے وقت میں ہوئی ہے جب فرانس نہ صرف شدید مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے بلکہ ایک منقسم پارلیمنٹ، عوامی مظاہروں اور سیاسی بے یقینی کی فضا بھی حکومت کے لیے بڑے چیلنج بن چکی ہے۔
فرانسوا بائرو کا استعفیٰ، میکرون کی مشکل گھڑی
اس سے قبل موجودہ وزیر اعظم فرانسوا بائرو نے پیر کے روز اپنا استعفیٰ صدر کو پیش کیا، جسے فوری طور پر قبول کر لیا گیا۔ بائرو صرف نو ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کی حکومت کو اس وقت دھچکا لگا جب وہ اپنے اہم وعدے — مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے ایک غیر مقبول اصلاحاتی منصوبہ — پر عمل درآمد میں ناکام رہے۔
مستعفی ہونے سے قبل اپنے خطاب میں بائرو نے فرانسیسی قانون سازوں کو خبردار کیا کہ حکومت کی تبدیلی مسائل کا حل نہیں بلکہ معاشی حقیقتیں اپنی جگہ برقرار رہیں گی۔ انہوں نے کہا:
"آپ حکومت گرا سکتے ہیں، لیکن حقیقت کو نہیں مٹا سکتے۔ اگر ہم نے اخراجات پر قابو نہ پایا تو قرض کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گا۔”
نئے وزیر اعظم، پرانے چیلنجز
39 سالہ سبسٹیئن لیکورنو، جو 2017 سے میکرون کے ساتھ مختلف وزارتوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں، اب ملک کی بدترین مالی اور سیاسی صورتحال میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ ان کی تقرری کو ایک ’’سیاسی جوکھم‘‘ بھی کہا جا رہا ہے، کیونکہ انہیں:
2026 کا بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہے
شدید عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا ہے
سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہے
بدھ کے روز ملک گیر احتجاج اور شاہراہوں کی بندش کی کال دی گئی ہے، جب کہ 18 ستمبر کو ایک بڑی یونین کی زیر قیادت ہڑتال بھی متوقع ہے۔
صدر میکرون کی اسٹریٹیجی اور ناکام جوا
صدر میکرون نے جون 2024 کے یورپی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی (RN) کی غیر معمولی کامیابیوں کے بعد اسنیپ الیکشن کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ فیصلہ الٹا پڑا، اور ان کی پارٹی نے نہ صرف پارلیمانی اکثریت کھو دی بلکہ قومی اسمبلی میں ایک منقسم منظرنامہ سامنے آیا جہاں نہ کوئی پارٹی مکمل اکثریت لے سکی، نہ کوئی واضح اتحاد بن سکا۔
فرانسیسی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، میکرون کا یہ اقدام اس بات کا مظہر تھا کہ وہ عوام کے رجحان کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے 2017 میں روایتی سیاسی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، لیکن 2022 میں دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے وہ پارلیمانی اکثریت برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔
آئینی شق 49.3 کا بار بار استعمال اور عوامی غصہ
دو سال کی غیر یقینی حکمرانی میں میکرون بارہا آئینی شق 49.3 کا سہارا لیتے رہے، جو حکومت کو پارلیمنٹ کے بغیر قانون سازی کی اجازت دیتی ہے۔ اس عمل سے نہ صرف اپوزیشن ناراض ہوئی بلکہ عوامی حلقوں میں بھی بے چینی اور غصہ بڑھتا گیا۔
موجودہ صورتحال میں، سبسٹیئن لیکورنو کو اس آئینی ہتھکنڈے سے بچتے ہوئے ایک وسیع البنیاد سیاسی اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا تاکہ بجٹ اور دیگر اہم قوانین پاس ہو سکیں۔
لیکورنو: سیاسی زندہ بچ جانے والے
سبسٹیئن لیکورنو کو ایک ’سیاسی زندہ بچ جانے والا‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ 2017 سے لے کر اب تک میکرون کی حکومت میں مختلف وزارتی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں، جن میں وزیر دفاع، علاقائی امور اور ماحولیاتی تبدیلی شامل ہیں۔ ان کی تعیناتی کے پیچھے یہ حکمتِ عملی سمجھی جا رہی ہے کہ وہ بائیں بازو کے سوشلسٹوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تاکہ بجٹ کو منظور کرایا جا سکے۔
تاہم، سیاسی تجزیہ نگار اس اقدام کو ایک محدود امید قرار دے رہے ہیں، کیونکہ بائیں بازو کی جماعتیں خود بھی حکومت میں شامل ہونے کے بجائے تنقیدی موڈ میں ہیں، جب کہ میکرون کا ذاتی اثرورسوخ بھی کمزور پڑ چکا ہے۔
سیاسی نظام کا بحران یا صدارتی ماڈل کا انجام؟
فرانسیسی پانچویں جمہوریہ، جو 1958 میں صدر چارلس ڈی گال نے سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے تشکیل دی، اب خود سیاسی بند گلی میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ صدارتی غلبے پر مبنی ماڈل میں کوئی اتحادی کلچر نہیں، جیسے جرمنی یا اٹلی میں پایا جاتا ہے، اس لیے موجودہ پارلیمانی تقسیم میں مؤثر حکمرانی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔
آگے کا راستہ: لیکورنو کامیاب ہو سکتے ہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا لیکورنو وہ ’ناممکن مسئلہ‘ حل کر سکیں گے جس میں ان کے پیشرو ناکام رہے؟
فرانس کا معاشی دباؤ، سیاسی بکھراؤ، عوامی غصہ اور صدر میکرون کی گرتی ہوئی مقبولیت اس نئے وزیر اعظم کے لیے ایک بہت کٹھن راہ بنا چکی ہے۔
فرانسیسی عوام، معیشت، اور سیاسی قیادت اب ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک معمولی غلطی بھی حکومت کو مزید بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
نتیجہ: اگلا سال فرانس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا
صدر میکرون کی باقی مدتِ صدارت اور سبسٹیئن لیکورنو کی وزارتِ عظمیٰ کا انحصار اب اس بات پر ہے کہ کیا وہ اختلافات کے باوجود ایک متحدہ حکمرانی ماڈل تیار کر سکتے ہیں؟
یا پھر فرانس مزید سیاسی افراتفری کی طرف بڑھے گا — جہاں جمہوری ڈھانچہ تو باقی رہے گا، مگر حکمرانی مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔