
دل کو دہلاتے مناظر !……..ناصف اعوان
خیر ماہرین ارضیات و ماحولیات بتا رہے ہیں کہ یہ سیلاب و بارشیں اب دیر بعد نہیں جلدی جلدی آئیں گے اور ہر بار ان کی شدت میں اضافہ ہو گا لہذا جنگی بنیادوں پر اقدامات ہونے چاہیں دریاؤں کو گہرا کیا جائے
سیلابی پانی جہاں جہاں سے گزر رہا ہے اپنے پیچھے بربادیوں کی داستانیں چھوڑ رہا ہے ۔ اس قدر تباہی اور اس قدر ہولناکی ہم نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ۔ پورا ملک افسردہ ہے کیونکہ کسی کا عزیز کسی کا دوست اور کسی کا رشتہ دار سیلاب کی زد میں آچکا ہے ۔
کہا جا رہا ہے کہ سیلاب چونکہ طویل عرصے کے بعد آیا ہے لہذا لوگوں نے جو دریاؤں کے قریب یا بہت قریب رہتے تھے اپنے تئیں یہ طے کر بیٹھے تھے کہ اب کوئی سیلاب کی صورتحال پیدا نہیں ہو گی اور بارشیں بھی شدید نہیں ہوں گی مگر یہ ان کی خوش فہمی تھی ۔ ماہرین کے مطابق دریا ‘ دریا ہوتے ہیں وہ اپنی جوع کبھی نہیں چھوڑتے دیر بعد سہی ضرور وہاں پہنچتے ہیں۔ سو وہ دھاڑتے ہوئے واپس لوٹے ہیں۔ ریاستی اداروں کو چاہیے تھا کہ جب ”ضرورت مند “اپنی عمارتیں کھڑی کر رہے تھے تو وہ انہیں بتاتے سمجھاتے بصورت دیگر طاقت سے روکتے کہ جس جگہ وہ اپنا مسکن تعمیر کر رہے ہیں وہ دریا صاحب کی ملکیت ہے مگر کسی نے اس طرف ان کی توجہ نہیں دلائی اور وہ مکانات بناتے گئے فصلیں کاشت کرتے گئے ۔
سوال یہ بھی ہے کہ جو علاقہ دریا کا نہیں تھا اور اس کا اُدھر سےکبھی گزر بھی نہیں ہوا تھا وہاں کیوں اس نے اودھم مچایا لہلہاتی فصلوں کو تباہ و برباد کر دیا ۔اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پانی غیر معمولی تھا بارشیں ہی نہیں اس کا سبب بنیں بھارت کے ڈیموں سے بھی شوریدہ لہروں نے ہماری جانب رخ کیا ابھی بھی کیا جارہا ہے۔ ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ بھارت کیوں امن چین سے نہیں رہنا چاہتا ۔اسے اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اور کوئی ہدف نہیں مل رہا انہیں ڈرانے کے لئے قدرتی آفات کافی نہیں کیا مگر وہ ہمیں ہی سامنے رکھے ہوئے ہے اور ہمارے اوپر کبھی جنگ مسلط کرتا ہے اور کبھی پانی سے وار کرتا ہے یہ بھی درست ہے کہ بارشوں سے بھی ہمیں براہ راست نقصان پہنچ رہا ہے کہ جب دو تین گھنٹے مسلسل بارش ہوتی ہے تو کمرکمر تک پانی چڑھ جاتا ہے جس سے گھروں کے اندر موجود قیمتی سامان استعمال کے قابل نہیں رہتا اسی طرح وہ زمینیں جن میں کھیتی باڑی ہوتی ہے وہ بھی ویران ہو جاتی ہیں یوں اس کے ہماری معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہو سکتی ہے مگر اس وقت متاثرین کو کھانے پینے کی شدید کمی کا سامنا ہے لہذا سماجی خدمت کی تنظیمیں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں جن میں پاکستان مرکزی مسلم لیگ ‘الخدمت فاؤنڈیشن ‘ المصطفےٰ ویلفئیر ٹرسٹ اور دوسری چھوٹی بڑی فلاحی و رفاحی تنظیمیں لُٹے پُٹے پریشان حال سیلاب زدگان کو خوراک پہنچانے کے لئے متحرک ہیں ۔ حکومت ان کے علاوہ جہاں تک ممکن ہو سکتا ہے بھر پور طور سے دواؤں غذاؤں اور کپڑوں کا انتظام کرنے میں مصروف ہے مگر کہیں کہیں لوگ شکایت بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ پوری طرح کوئی سماجی تنظیم یا حکومت کھانے پینے کی اشیاء نہیں پہنچا رہی کیونکہ تباہی شدید بھی ہے اور اس کا پھیلاؤ بھی بے حد و حساب ہے لہذا عوام کو اپنے طور پر بھی کوئی عارضی بندوبست کرنا چاہیے ۔ بیرونی ممالک سے بھی امدادی سلسلہ شروع ہو رہا ہے مگر اس بار شاید وہ پہلے کی طرح ضروریات زندگی نہیں بھجوائیں گے کیونکہ پچھلے سیلاب میں بااثر لوگوں نے متاثرین تک بیرونی امداد کم پہنچائی اور اشیا کو بازار میں سستے داموں فروخت کیا گیا ایسا بھی ہوا کہ بعض وڈیروں کے گھروں میں وہ پڑی رہیں ۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے ہمیں مل جل کر بے بس سیلاب زدگان کی مدد کرنا ہو گی۔مخیر حضرات کو آگے آنا ہو گا وہ اس افتاد میں اپنے ہم وطنوں کو کسی صورت تنہا نہ چھوڑیں اور حکومت انہیں مجبور نہ کرے کہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں کے سروں پر ہاتھ رکھیں یہ وقت پوائنٹ سکورنگ کا بالکل نہیں ہنگامی حالت ہے لوگوں کے خواب ٹوٹ گئے ہیں ان کے سپنے چکنا چور ہو چکے ہیں چنگھاڑتے پانیوں نے ان کا کچھ باقی نہیں چھوڑا ایسا لگتا ہے کہ وہ انیس سو سنتالیس کے مہاجر ہوں اُس وقت بھی ایسا ہی منظر تھا۔
خیر ماہرین ارضیات و ماحولیات بتا رہے ہیں کہ یہ سیلاب و بارشیں اب دیر بعد نہیں جلدی جلدی آئیں گے اور ہر بار ان کی شدت میں اضافہ ہو گا لہذا جنگی بنیادوں پر اقدامات ہونے چاہیں دریاؤں کو گہرا کیا جائے دونوں طرف مضبوط ترین بند باندھیں جائیں دریا کے قریبی علاقوں میں کوئی نئی تعمیر نہیں ہونی چاہیے جو مکانات تعمیر ہو چکے ہیں ان کے گرد پختہ دیوار بنائی جائے یا پھر رہائش پر پابندی لگا دی جائے ۔
تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ ہمیشہ سے سیلاب آتے رہے ہیں جو انسانی بستیاں اپنی لپیٹ میں لے کر ان کا نشان تک مٹا دیتے آج جب کہیں کھدائی ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح لوگوں کی اموات ہوئیں ان کے گھر باہر ملیامیٹ ہوئے لہذا کہیں ہم بھی اسی دور کی طرف تو نہیں جا رہے مگر اس دور میں آج کی طرح جدید ٹیکنا لوجی نہیں ہوتی تھی تحقیق بھی نہیں ہو گی اب جب سائنس بہت ترقی کر چکی ہے تو آفات ارضی سے بچاؤ کی تدابیر کرنی چاہیے مگر معذرت کے ساتھ ہمارے حکمران غریب عوام کے لئے کبھی بھی سنجیدہ نہیں دکھائی دئیے اگر ایسا ہوتا تو وہ پینتیں چالیس برسوں میں ضرور کوئی بندو بست کر لیتے مگر انہیں اپنی ذات کے حصار سے باہر آنے کا موقع میسر نہیں آیا ۔ ہم یہ بات مانتے ہیں کہ اگر بارشی پانی بہت زیادہ ہو تو اسے سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے اسے لازمی اچانک پیش آنے والی کسی آفت کے لئے اپنی تیاری کرنی چاہیے ۔رہی بات بھارتی پانی کی اسے ہوش کے ناخن لینےچاہیں کیونکہ اگر وہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے تو پھر اس کو کسی ہتھیار سے ہی جواب بھی ملے گا۔ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ وہ اپنے ڈیموں میں جمع ہونے والے پانی کو کسی نقصان کی غرض سے نہیں بروئے کار لائے گا بصورت دیگر اس کا اپنا نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔
حرف آخر یہ کہ اہل وطن سیلاب سے متاثرہ افراد کی بڑھ چڑھ کر خدمت کریں انہیں جب تک اِدھر اُدھر سے کوئی مدد حاصل نہیں ہوتی ان کا انحصار آپ پر ہے لہذا آگے بڑھئے ان کے آنسو پونچھیے اور انہیں حوصلہ دیجئیے !