
کبھی اپنی اپنی اداوں پہ بھی غور کیجے ……حیدر جاوید سید
اب کوئی سوال کرے کہ صاحب!اللہ رب العزت تورب العالمین ہے۔ عادلوں کا عادل، بھلا وہ اپنی مخلوق کو دکھ دینے والے سامان کیوں کرے گا؟
ہم تو لگ بھگ نصف صدی سے یہ عرض کرتے چلے آرہے ہیں کہ مسلکی بالادستی کی پراکسی وار کے بڑھاوے کے پیچھے موجود قوتوں کو ہماری سماجی وحدت، امن و استحکام سے نہیں، اپنے مفادات سے دلچسپی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کوئی سچ سننا ہی نہیں چاہتا۔ ہم اس حقیقت سے منہ موڑ کے جی رہے کہ ’’مذہبی اور مسلکی تعصبات نے انسانی سماج کو سب سے زیادہ نققصان پہنچایا ہے‘‘۔
یہ فقط ہمارا (مسلمانوں کا) مسئلہ نہیں، تاریخ عالم کے سارے ادوار پر نگاہ ڈال لیجئے پوری انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ خون خرابہ مذہب اور مسلک کی بالادستی کے جنون کی بدولت ہوا۔ یہودی تن صدیاں لڑتے رہے۔ باقالی اور یہود دونوں پھر تھک گئے۔ عیسائی لگ بھگ 6 سے 8 سو سال تک ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے۔ ہندوستان میں بدھ مت کی مہذب تہذیب پر ہندو توا کے علمبردار چڑھ دوڑے۔ کتنا خوب بہا؟
پچھلے ساڑھے چودہ سو برسوں سے ہم مسلمان لڑرہے ہیں۔ حساب کر لیجئے اس سارے خون خرابے کا مذاہب عالم کو فائدہ کیا ہوا؟
آج کی دنیا میں جن کو مذہب بیزار لوگ (میں انہیں مذہب انفرادی مسئلہ ہے کا علمبردار سمجھتا ہوں) کہا جاتا ہے وہ اکثریت میں ہیں۔ کسی کوانکار کی جرات ہے کہ اگر یورپ میں مذہب اور ریاست کا الگ الگ تشخص طے نہ ہوتا تو یورپ آج بھی 13ویں اور 14ویں صدی عیسوی میں کھڑا ہلکان ہورہا ہوتا۔
وہ اس سے آگے ہی اس لئے بڑھ پائے کہ انہوں نے فیصلہ کیا مذہب انسان کا ذاتی مسئلہ ہے اور وہ اس کے لئے پادری، پوپ یا گرجا کو نہیں خدا کو جوابدہ ہے۔ بے ڈھنگا پن اور ہٹ دھرمی، ہمارا ورثہ ہے اس سے سوا ہے کیا۔
اسلام کے نام پر لکھی گئی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے ہر آنے والے دن کے ساتھ نفرتیں بڑھیں۔ ابتدا میں مسلمان دو طبقوں میں بٹے۔ خلافت کے حامی اور امامت کے پیروکار۔ آگے چل کر خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی اور امامت کے لئے جو تصورات پیش کئے گئے وہ بعض کے نزدیک انسانی عقل سے ماورا تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طرف کے ملا اپنا اپنا سودا یہ کہہ کر فروخت کرتے ہیں کہ سب من جانب اللہ ہے۔
اب کوئی سوال کرے کہ صاحب!اللہ رب العزت تورب العالمین ہے۔ عادلوں کا عادل، بھلا وہ اپنی مخلوق کو دکھ دینے والے سامان کیوں کرے گا؟ جواب میں جو کہا جاتا ہے اسے کالم کی ان سطروں میں لکھنے کا یارا نہیں۔
یہاں مسلم معاشروں میں پچھلے چودہ سو برسوں سے الٹی گنگا بہانے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں۔ آپ کرہ ارض پر موجود مسلمانوں کے دو ابتدائی طبقوں، خلافتیوں اور امامتیوں کی کوکھ سے برآمد ہوئے اور موجود سارے فرقوں کی بنیادی تعلیمات کو غور سے پڑھئے اور ان کے ملائوں کی باتوں پر دھیان دیجئے۔ ایسا لگتا ہے اللہ، رسولؐ اور قرآن فقط اسی فرقے کی ملکیت ہے باقی کے سب فارغ ہیں۔
تاریخ لکھنے (اسلام اور مسلمانوں کی) والوں کے امام کہلانے والے طبری نے دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے فسانہ ساز سیف بن عمر تمیمی کی تاریخ سے متعلق ان روایات کو تاریخ کا حصہ بنایا جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ مسلمانوں نے صرف پہلی صدی میں ہی مسالک کے اختلاف کی بنیاد پر دس لاکھ سے زائد لوگ ماردیئے۔ اس حوالے (سیف بن عمر تمیمی کی روایت) پر مجھے ایک طالب علم کے طور پر اس لئے یقین نہیں کہ علم الرجال کے کئی ماہرن نے اس شخص کو زندیق قرار دیتے ہوئے اس سے احادیث لینے سے منع کردیا۔
بس یہی سوال تاریخ کے ہر دور میں ذی شعور لوگوں نے اٹھایا۔ جس شخص سے حدیث نہ لی جاسکتی ہو تاریخ کے حوالے سے اس کی روایات کوقابل اعتماد کیونکر مان لیا جائے؟ اب اگر ہم ٹھنڈے دل سے مسلمانوں میں موجود مسالک کے اختلاف اور ان سے پھوٹے تشدد کا جائزہ لے کر حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا کہ ہر عہد کے مسلم حکمرانوں نے ’’تقسیم کرو اور ٹھاٹھ سے حکومت کرو‘‘کے اصول پر عمل کیا۔
اس صورت میں صاف سیدھا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلکی اختلافات، نفرتیں ہر دو ان اہل اقتدار کے پیدا کردہ فتنے ہیں جو اپنے اقتدار کوقائم رکھنے کے لئے کسی بھی حد تے تجاوز کو اپنے تئیں جائز سمجھتے تھے۔ یہاں ہم ہیں ازل سے بے وقوف کہ پچھلی ساڑھے 14 صدیوں سے حکمرانوں کی بھڑکائی آگ کے لئے بساط مطابق ایندھن فراہم کررہے ہیں۔
کبھی کسی نے اس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ آپ سرکار دو عالم حضرت محمدؐ تشریف لائے تو انسانیت کوتنگ نظری، جب، تعصبات، استحصال اور طبقاتی بالادستی سے نجات دلانے کے لئے اور اگر ہم نسل در نسل اپنے اپنے فرقوں کے رہنمائوں کے کہنے پر ان خرابوں کو بڑھانے میں کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں
دیکھا جائے تو علم اور ذوق مطالعہ ہر دوسے محرومی نے ہمیں کچی روٹی پڑھے فرقہ پرستوں کا ذہنی غلام بناکر رکھ دیا ہے۔ باہر کی بات نہ کریں فقط اپنے گھر کو ہی دیکھیں تو کیا یہ سچ نہیں کہ دشہت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کی نماز جنازہ نہ پڑھانے کے فتوے دیئے گئے۔
اسی ہزار سے زیادہ پاکستانی مسلمان مردوزن اور بچوں کے قاتلوں کے لئے آج بھی مساجد میں یہ کہہ کر دعائیں مانگی جاتی ہیں کہ ’’یا اللہ مجاہدین کو فتح نصیب کر‘‘۔کیا خوب بات ہے کہ قاتلوں کو مسیحا اور اسلام کی نشاط ثانیہ کا علمبردار بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ قصہ وہی ہے جو ابتدائی سطور میں عرض کرچکا۔ مسلکی بالادستی کا جنون ہے اس سے سوا کچھ نہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ یہ ہے کہ بہت آسانی کے ساتھ سارے فساد اور تباہی کا ملبہ یہودوہنود پر ڈال کر بری الذمہ ہولیا جائے۔
خدا کے بندو آگ تم لگائوں، ایندھن تم فراہم کرو، حالات تم پیدا کرو، اپنے کلمہ گو بھائیوں کے خون سے ہاتھ تم رنگو اور ذمہ دار یہودوہنود اور اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوگا۔ میں اس تلخ نوائی پر معذرت خواہ ہوں لیکن میری ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ اب کھلے انداز میں مکالمہ ہونا چاہیے۔ اسلام دین فطرت ہے تو پھر مذہبی اور مسلکی تعصبات اور سر تن سے جدا کے نعرے تو فطرت کی کھلی توہین کے زمرے میں آتے ہیں۔
ان تعصبات کی کوکھ سے برآمد شدہ تشدد صریحاً خلاف اسلام ہے۔ ہمارے سماج کے سنجیدہ صاحب الرائے حضرات نے چُپ کا روزہ وقت پر نہ توڑا تو ایک ایسی شام غریباں ہمارا مقدر بننے والی ہے جس میں کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا اور نہ کوئی پھر سے آبرومندانہ طور پر جینے کے لئے رہنمائی کرپائے گا۔ معاف کیجئے گا بہت ضروری ہوگیا ہے چپ کا روزہ توڑنا اور حضرت سیدابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے بقول ’’سچ وقت پر بولنے کا‘‘ ہمارے پاس نہ تو کوئی راستہ ہے اور نہ متبادل انتظام۔
ہاں یہ خطرہ منڈلارہا ہے کہ فہمیدہ مزاج لوگوں نے اپنے حصہ کا کردار ادا نہ کیا تو تعصبات کی آگ ہمارا سب کچھ جلادے گی۔ کثیر القومی ملک پاکستآن آج جن نازک مسائل، حالات اور بدترین عذابوں سے دوچار ہے ان کا حل تلاش کرنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
یہ اسی صورت ادا ہوسکتی ہے جب ہم قاتلوں کو مسیحا اور ٹوڈیوں کو نجات دہندہ سمجھنے کی دیرینہ بیماری کا علاج ڈھونڈ لیں۔ سماجی وحدت، اخوت اور پیغام محبت کو عام کرنے کے لئے اپنے اپنے حصہ کا کردار کسی حیل و حجت کے بغیر ادا کریں۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک کثیرالقومی اور کثیرالمسلکی ملک ہے جیو اور جینے دو کے اصول پر عمل بہت ضروری ہے۔ اپنے اپنے نظریات پر ثابت قدمی سے قائم رہتے ہوئے دوسروں کے نظریات اور حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔ ہم یہ سب نہیں کرپائے تو پھر ان کی بات سچ ثابت ہوگی جو کہتے ہیں مسلمانوں کی اصل اور ہے اور دعویٰ کچھ اور ہے جبکہ کرتے کچھ اور ہیں۔ سو آیئے میدان عمل میں نکلئے اور بربادیوں کا سامان کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جایئے۔