
ڈیفنس رپورٹر – نیشنل سیکیورٹی ڈیسک, وائس آف جرمنی کے ساتھ
پاکستان کی بہادر افواج کی جانب سے ایک اور کامیاب انسدادِ دہشتگردی آپریشن کے بعد ایک ہتھیار ڈالنے والے دہشتگرد عبدالصمد کے تہلکہ خیز اعترافی بیان نے خوارج کے فتنہ کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ عبدالصمد کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے رہا ہے، اور اُس نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے کئی سال افغانستان میں تربیت حاصل کی، مختلف دہشتگرد کمانڈروں کے زیرِ اثر کام کیا، اور بالآخر حقیقت کو سمجھتے ہوئے خود کو پاک فوج کے حوالے کیا۔
افغانستان سے دہشتگردی کے مرکز تک
اپنے اعترافی بیان میں عبدالصمد نے انکشاف کیا کہ وہ ساڑھے چار سال افغانستان میں رہا جہاں اس نے کلاشنکوف، بارودی مواد اور دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کی مکمل تربیت حاصل کی۔ بعدازاں وہ پاکستان آیا اور دہشتگرد گروپ گل بہادر گروپ کے ساتھ منسلک ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ پہلے منظر ہیل میں گل بہادر گروپ کے کمانڈر صادق سے ملا اور وہاں تین ماہ تک دہشتگرد سرگرمیوں میں شامل رہا۔
اس کے بعد وہ زنگوٹی خرسین پہنچا جہاں کمانڈر اسد ملا کے ساتھ رابطہ ہوا اور اس کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ اس دوران اس نے مسجدوں کو دہشتگردی کے اڈے بناتے دیکھا اور خود کو گمراہی کے ایک ایسے اندھیرے میں پایا جس سے نکلنے کی اُسے جلد ہی شدید ضرورت محسوس ہونے لگی۔
مقدس مقامات کی بے حرمتی اور اخلاقی گراوٹ کے لرزہ خیز انکشافات
عبدالصمد کے مطابق، کمانڈر اسد ملا مسجد کے اندر بارودی سرنگیں (IEDs)، مائنز، اور ڈرون بم تیار کرواتا تھا۔ یہ سب کچھ مسجد کے اندر کیا جاتا تھا، اور اس دوران گانے اور غیراخلاقی ویڈیوز چلائی جاتی تھیں۔ عبدالصمد نے بتایا کہ اسد ملا نے نہ صرف مسجد کی توہین کی بلکہ دو کمسن بچوں کو جنسی استحصال کے لیے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔
"جب میں نے ان کا طرزِ عمل دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ کافروں سے بھی بدتر ہیں، قرآن کی بے حرمتی، بچوں سے زیادتی، اور مساجد کا تقدس پامال کرنا ان کا معمول تھا۔”
دہشتگرد گروہ کا نیٹ ورک – مساجد بطور تربیتی مراکز
عبدالصمد نے انکشاف کیا کہ زنگوٹی گاؤں کی مساجد ان دہشتگردوں کے اہم مراکز تھے۔ مینار والی مسجد، دین اکبر مسجد، مرزا خان مسجد، اور لاؤد خیل مسجد میں مختلف تعداد میں دہشتگرد موجود تھے۔ صرف مینار والی مسجد میں 15 سے زائد دہشتگرد سرگرم تھے اور تمام مساجد کی کمان اسد ملا کے ہاتھ میں تھی۔ یہ مساجد عوام کے لیے عبادت گاہیں نہیں بلکہ خوارج کے لیے دہشتگردی کی تربیت گاہیں بن چکی تھیں۔
سچائی کا سامنا اور فوج کے ساتھ پہلا رابطہ
عبدالصمد کے مطابق، جب اس نے ان گمراہ عناصر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اسی دوران پاک فوج نے بروقت چھاپہ مار کر دہشتگردوں کے گڑھ کو منتشر کر دیا۔ اسد ملا فرار ہوتے وقت ساتھیوں سے موبائل فون اور شناختی کارڈز لے گیا اور موبائل فارمیٹ کر دیے تاکہ کوئی ثبوت نہ بچے۔
عبدالصمد نے مزید کہا:
"میں نے طالبان کے ساتھ پانچ سال گزارے اور پاک فوج کے ساتھ صرف پانچ دن، مگر میں سچائی کی گواہی دیتا ہوں کہ فوج حق پر ہے اور طالبان جھوٹے، منافق اور خوارج ہیں۔”
عوام کے لیے پیغام – خوارج سے ہوشیار رہیں
اپنے اعترافی بیان کے اختتام پر عبدالصمد نے عوام سے اپیل کی کہ اپنے بچوں کو خوارج سے دور رکھیں، ان کے جھوٹے نظریات سے خبردار رہیں، اور فوج کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ ان عناصر کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صرف فساد فی الارض پھیلاتے ہیں اور پاکستان کے دشمنوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔
فتنۂ خوارج کا خاتمہ – وقت آ گیا ہے
عبدالصمد کے انکشافات سے واضح ہو گیا ہے کہ خوارج کے نام نہاد جہاد کا اصل مقصد صرف اسلام کے خلاف سازش، نوجوانوں کو گمراہ کرنا، اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا وقت آ چکا ہے۔
پاک فوج نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ معاشرے کو فتنۂ خوارج جیسے اندرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ اس اعترافی بیان کے بعد دہشتگردوں کے حمایتی عناصر کو بھی بے نقاب ہونا چاہیے اور عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے اصل محافظ فوجی جوان ہیں، نہ کہ مسجدوں میں چھپے خوارج۔