پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

بلوچستان اسمبلی کا انسداد دہشتگردی میں نئی قانون سازی کا تاریخی اقدام: خفیہ عدالتی نظام متعارف، شدید تحفظات اور حمایت کی بازگشت

"یہ قانون انصاف کے اصولوں اور آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایسے میں اگر کسی کے خلاف دشمنی کی بنیاد پر جھوٹی گواہی دی جائے، تو وہ ملزم کیسے اپنی صفائی دے گا؟"

کوئٹہ (خصوصی رپورٹ) – بلوچستان اسمبلی نے انسداد دہشتگردی کے قوانین میں اہم اور دور رس نتائج کی حامل ترمیم منظور کر لی ہے جس کے تحت صوبے میں دہشتگردی کے مخصوص مقدمات کو اب خفیہ، محفوظ اور جدید عدالتی نظام کے تحت چلایا جائے گا۔ بدھ کو منظور ہونے والے انسداد دہشتگردی (بلوچستان ترمیمی) ایکٹ 2026 نے قانونی، سیاسی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

نئے قانون کی جھلک: ‘فیس لیس’ عدالتیں، خفیہ شناخت، ورچوئل ٹرائلز

اس قانون کے تحت:

  • ججوں، وکلا، گواہوں اور دیگر متعلقہ افراد کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی۔

  • گواہوں کو علامتی یا کوڈ نام دیے جائیں گے۔

  • مقدمات کی سماعت عدالت کے بجائے جیل، محفوظ مقام یا ورچوئل/الیکٹرانک ذرائع سے کی جا سکے گی۔

  • آواز بدلنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی بھی اجازت ہو گی تاکہ گواہوں یا ججوں کی شناخت مکمل طور پر محفوظ رہے۔

  • مقدمے کی تمام کارروائیاں اور فیصلے سیل ریکارڈ میں رکھے جائیں گے، جس تک صرف چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ اور حکومت کے نامزد خفیہ افسر کو رسائی ہو گی۔

قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس دفعہ کو تمام دیگر قوانین پر بالادستی حاصل ہو گی، یعنی یہ آئندہ عدالتی نظام کی ایک "خصوصی عدالت” کی شکل اختیار کرے گی۔


قانون کی منظوری – اختلاف اور تنقید کی گونج

یہ قانون مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی پارلیمانی سیکریٹری زرین مگسی نے پیش کیا، جسے ایوان میں کثرتِ رائے سے منظور کیا گیا۔ تاہم، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر اور "حق دو تحریک” کے نمائندہ مولانا ہدایت الرحمان نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور نیشنل پارٹی کے ارکان اہم اجلاس سے غیر حاضر رہے، جس پر مولانا ہدایت الرحمان نے حیرت کا اظہار کیا۔

ایوان میں خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا:

"یہ قانون انصاف کے اصولوں اور آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایسے میں اگر کسی کے خلاف دشمنی کی بنیاد پر جھوٹی گواہی دی جائے، تو وہ ملزم کیسے اپنی صفائی دے گا؟”

انہوں نے موجودہ اور سابق انسداد دہشتگردی قوانین کے سیاسی استعمال پر بھی سوالات اٹھائے اور دعویٰ کیا کہ:

"ہم پر بھی دہشتگردی کے مقدمات بنائے گئے، کیا ہم دہشت گرد تھے؟”


حکومت کا موقف – تحفظ اولین ترجیح

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایوان میں واضح کیا کہ:

"یہ قانون سیاسی کارکنوں کے لیے نہیں، بلکہ صرف ان دہشتگردوں کے لیے ہے جو عدالتوں، وکلا اور گواہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔”

انہوں نے ماضی کے دہشتگردی کے واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ:

  • 2009 میں نصیر آباد میں جج کے گھر پر حملے کے بعد 60 دہشتگرد بری ہو گئے۔

  • گوادر میں آٹھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور قتل ہوئے مگر مقامی افراد نے گواہی نہ دی۔

  • ایسے حالات میں عدالتی نظام کو بچانے کے لیے خفیہ عدالتیں ضروری ہیں۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ:

"یہ فیس لیس عدالتی نظام دنیا میں نیا نہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسے ممالک نے بھی اسی طرح کے سخت قوانین نافذ کیے۔”

انہوں نے قانون سازی کو دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کن ہتھیار قرار دیا اور کہا کہ:

"جب تک پارلیمان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں لیڈ نہیں لے گی، ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے۔”


ہیومن رائٹس کمیشن کے تحفظات

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کے بلوچستان میں نمائندہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے نئے قانون کو آئینی اصولوں سے متصادم قرار دیا۔ انہوں نے کہا:

"پاکستانی آئین ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ یہ قانون اس حق کو محدود کرتا ہے، جس سے بنیادی انسانی آزادیوں پر ضرب پڑتی ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ:

  • پاکستان میں پہلے سے ضابطہ فوجداری، پولیس ایکٹ، اور پروسیجر کوڈ موجود ہیں۔

  • یہ نیا قانون ان کے ساتھ تصادم میں ہے۔

  • اس طرح کے قوانین کا سیاسی غلط استعمال پہلے بھی ہوا ہے، آئندہ بھی ہو سکتا ہے۔


نئے قانون کے اہم نکات

نکتہتفصیل
دفعہ 21AAAانسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 میں ترمیم کے تحت شامل
عدالتی نظامخفیہ، مخصوص عدالت، ججوں اور وکلا کی شناخت پوشیدہ
سماعت کا طریقہجیل یا ورچوئل (ویڈیو/آڈیو)، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے
اتھارٹیگریڈ 21 کا خفیہ افسر، چیف جسٹس سے مشاورت کے بعد مقدمات نامزد کرے گا
خفیہ شناختجج، وکیل، گواہ، سب کی شناخت محفوظ، کوڈز اور علامتی ناموں کا استعمال
فیصلوں کا تحفظتمام عدالتی کارروائیاں سیل شدہ ریکارڈ میں محفوظ

سیاسی اور قانونی نتائج

نئے قانون کی منظوری سے بلوچستان میں انسداد دہشتگردی کی کوششوں کو ایک نیا قانونی تحفظ ملا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی آزادیٔ اظہار، شفاف عدالتی کارروائی، اور بنیادی انسانی حقوق پر ایک بڑی بحث کھڑی ہو گئی ہے۔

یہ قانون بظاہر ان دہشتگردوں کے خلاف بنایا گیا ہے جو عدالتی نظام کو خوف زدہ اور معطل کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے قوانین کا غلط استعمال ماضی میں سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کے خلاف ہو چکا ہے۔


حکومت اور اپوزیشن کے بیچ خلیج

  • حکومت: "یہ قانون ججز، وکلا، گواہوں کی حفاظت اور دہشتگردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ضروری ہے۔”

  • اپوزیشن (جماعت اسلامی): "یہ قانون انسانی حقوق اور شفاف عدالتی نظام کی خلاف ورزی ہے۔”


پس منظر

بلوچستان کئی دہائیوں سے شورش اور دہشتگردی کا شکار رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں تشدد، ٹارگٹ کلنگ اور حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جون 2025 میں بھی ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت دہشتگردی میں ملوث افراد کو 90 دن تک حراستی مراکز میں رکھنے کی اجازت دی گئی۔

بدھ کو، اس نئے قانون کے ساتھ ساتھ بلوچستان اسمبلی نے:

  • بلوچستان فرانزک سائنس بل

  • لیویز فورس کی صوبائی پولیس میں ممکنہ شمولیت کے بل بھی منظور کیے۔


نتیجہ: دہشتگردی کے خلاف قانون یا شہری آزادیوں پر وار؟

انسداد دہشتگردی کا نیا قانون بلوچستان میں سلامتی کے لیے ایک مضبوط قانونی قدم قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اس کے ممکنہ آئینی اور انسانی حقوق کے مضمرات پر بحث مزید شدت اختیار کرے گی۔

کیا یہ قانون دہشتگردوں کے خلاف مؤثر ہوگا؟
یا پھر سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کے نمائندوں کے خدشات درست ثابت ہوں گے؟
وقت ہی بتائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button