
اقوام متحدہ، نیویارک,وائس آف جرمنی کے ساتھ:
اقوام متحدہ میں ایک اہم اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران مقررین نے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی شدید مذمت کی ہے اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کے اقدام کو بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یہ اجلاس "سندھ طاس معاہدہ اور پاکستان کا آبی بحران: چیلنجز اور لائحہ عمل” کے عنوان سے پاکستان کے مستقل مشن برائے اقوام متحدہ اور مسلم امریکن لیڈرشپ الائنس (MALA) کے اشتراک سے منعقد ہوا۔
اجلاس میں عالمی ماہرین، اقوام متحدہ کے نمائندگان، سفارتکاروں، ماحولیاتی اور آبی ماہرین، سول سوسائٹی کے کارکنان اور صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے سندھ طاس معاہدے کی تاریخی اہمیت، موجودہ خطرات اور اس سے جڑے انسانی و ماحولیاتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
پانی کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنا ناقابل قبول ہے: پاکستان کے مستقل مندوب
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ پانی کسی بھی قوم کی بقا کے لیے بنیادی عنصر ہے اور اسے سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کرنا عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا، "سندھ طاس معاہدہ اب بھی ایک قانونی دستاویز کے طور پر قائم ہے، اور اس میں کسی بھی فریق کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اسے یکطرفہ طور پر معطل کرے۔ بھارت کی حالیہ حرکات نہ صرف معاہدے کی روح کے منافی ہیں بلکہ خطے میں آبی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔”
عاصم افتخار نے زور دیا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ان خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور جنوبی ایشیا میں آبی تنازعات کو پرامن انداز میں حل کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔
"سندھ طاس معاہدہ انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے”: نائب مستقل مندوب عثمان جدون
اجلاس کے دوران پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کو پاکستان کی "زندگی کی لکیر” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ صرف دو ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ انسانیت کے مشترکہ ورثے کی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا، "ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پانی کی قلت صرف پاکستان کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور عالمی سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں اپنا فعال کردار ادا کریں تاکہ پانی کو سیاسی ہتھیار بننے سے روکا جا سکے۔”
عالمی برادری کا ردعمل اور تکنیکی صلاحیتوں کی ضرورت
اجلاس میں دیگر بین الاقوامی مقررین نے بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور بھارت کے اقدامات کو عالمی آبی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اپنی آبی پالیسیوں میں سائنسی و تکنیکی بنیادوں پر اصلاحات لانی چاہئیں تاکہ وہ موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز سے مؤثر طور پر نمٹ سکے۔
ماہرین نے کہا کہ پاکستان کو پانی کے ذخائر بڑھانے، جدید آبپاشی نظام اپنانے، پانی کے ضیاع کو روکنے، اور آبی ڈیٹا کے تجزیے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
سندھ طاس معاہدہ: ایک تاریخی پس منظر
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (ستلج، بیاس، راوی) پر بھارت اور مغربی دریاؤں (جہلم، چناب، سندھ) پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کو دنیا کا سب سے کامیاب آبی معاہدہ تصور کیا جاتا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے اس کی خلاف ورزیاں بڑھ گئی ہیں، جس پر پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی فورمز پر آواز بلند کی ہے۔
اختتامیہ: عالمی ضمیر کو جگانے کی کوشش
اجلاس کا مقصد نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی موجودہ صورت حال کو اجاگر کرنا تھا بلکہ عالمی برادری کو یہ باور کروانا بھی تھا کہ پانی پر سیاست خطے میں امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ مقررین نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آبی تنازعات کو حل کرنا اب محض سفارتی ترجیح نہیں بلکہ انسانی بقاء کی ضرورت بن چکا ہے۔
رپورٹ:
تحریر: [آپ کا نام اگر شامل کرنا چاہیں تو]



