
جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار خواتین کی دہائیوں بعد انصاف کی جنگ: تاریخ، تشدد اور تلافی کا مقدمہ
"ہماری حکومت نے ہمیں ڈالرز کے عوض امریکی فوجیوں کی جنسی تسکین کے لیے بیچ دیا۔ اب ہم صرف انصاف، معافی اور تلافی چاہتے ہیں۔"
سیول، جنوبی کوریا (بین الاقوامی انسانی حقوق ڈیسک)
1950 سے 1980 کے دوران جنوبی کوریا میں تعینات امریکی فوجیوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی طویل خاموشی اب انصاف کی دہائی میں بدل چکی ہے۔ ان متاثرہ خواتین نے، جنہیں کئی دہائیوں تک نظر انداز کیا گیا، اب نہ صرف اپنی داستانیں دنیا کے سامنے رکھ دی ہیں بلکہ جنوبی کوریا کی حکومت اور امریکی فوج کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی شروع کر دی ہے۔
یہ مقدمہ جنوبی کوریا کی تاریخ کا ایک حساس اور پیچیدہ باب ہے، جس نے نہ صرف انسانی حقوق، خواتین کے استحصال، اور جنگی پالیسیوں پر سوالات کھڑے کیے ہیں، بلکہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے تعلقات کو بھی ایک اخلاقی اور قانونی امتحان میں ڈال دیا ہے۔
تاریخی پس منظر: فوجی مفادات کے سائے میں انسانی حقوق کی پامالی
1950 کی کورین جنگ کے بعد، جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کے حملے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد تعینات کی گئی۔ اس فوجی موجودگی کے ساتھ ساتھ، سرکاری سرپرستی میں مخصوص قحبہ خانے (بروتھلز) بھی قائم کیے گئے، جن کا مقصد امریکی فوجیوں کو "تفریح” فراہم کرنا تھا۔
تاریخ دانوں اور ماہرین کے مطابق، ان قحبہ خانوں میں ہزاروں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو رکھا گیا، جنہیں ابتدائی طور پر "مہمان نوازی” یا "مشروبات کی خدمت” کے بہانے لایا گیا۔ لیکن بعد ازاں انہیں زبردستی جسم فروشی کے لیے مجبور کیا گیا، جہاں وہ تشدد، جنسی زیادتی، اور جسمانی استحصال کا شکار ہوتی رہیں۔
متاثرہ خواتین کی داستانیں: ظلم کی گواہی
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، ان خواتین میں سے کئی اب ضعیف العمر ہیں، لیکن ان کی یادداشتوں میں وہ زخم آج بھی تازہ ہیں۔ ایک متاثرہ خاتون نے بتایا:
"جب میں صرف سترہ سال کی تھی تو مجھے دھوکے سے اس زندگی میں دھکیلا گیا۔ ہر رات ہمیں امریکی فوجیوں کے پاس بھیجا جاتا۔ وہ ہمیں مارتے، گالیاں دیتے اور جنسی زیادتی کرتے۔”
ایک اور خاتون نے جذباتی لہجے میں کہا:
"ہماری حکومت نے ہمیں ڈالرز کے عوض امریکی فوجیوں کی جنسی تسکین کے لیے بیچ دیا۔ اب ہم صرف انصاف، معافی اور تلافی چاہتے ہیں۔”
قانونی پیشرفت: پہلی بار امریکی فوج کے خلاف مقدمہ
سال 2022 میں جنوبی کوریا کی اعلیٰ عدالت نے فیصلہ سنایا کہ حکومت نے غیر قانونی قحبہ خانے قائم کیے اور چلائے، اور متاثرہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ضروری ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ متاثرہ خواتین کو مالی معاوضہ دیا جائے۔
اس فیصلے کے بعد، متاثرہ خواتین نے اب ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے براہ راست امریکی فوج کو بھی قانونی کارروائی میں فریق بنایا ہے۔ اب تک 117 سے زائد خواتین نے امریکی فوج اور جنوبی کوریا کی حکومت دونوں کے خلاف دعویٰ دائر کیا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ:
دونوں حکومتیں معافی مانگیں
دس ملین وون (تقریباً 7,200 امریکی ڈالر) فی کس مالی معاوضہ ادا کریں
متاثرہ خواتین کو ریاستی سطح پر بحالی اور ذہنی و جسمانی امداد فراہم کی جائے
سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا ردِعمل
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور سماجی کارکنوں نے اس مقدمے کو تاریخی سنگِ میل قرار دیا ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا:
"امریکی فوجیوں نے جنوبی کوریا کے آئین کو پامال کیا، خواتین کی ذاتی آزادی چھین لی اور ان کی زندگیاں تباہ کر دیں۔ یہ صرف جنسی تشدد نہیں، بلکہ ریاستی پالیسی کے تحت انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی تھی۔”
امریکی اور جنوبی کورین حکومتوں کا مؤقف
ابھی تک امریکی حکومت یا فوج کی جانب سے باضابطہ جواب سامنے نہیں آیا۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ سفارتی تعلقات کی نزاکت کے باعث اس معاملے پر ردِعمل پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب، جنوبی کوریا کی حکومت پر داخلی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ متاثرہ خواتین کے ساتھ ریاستی سطح پر معذرت کرے اور عدالتی فیصلے کے مطابق فوری معاوضہ ادا کرے۔
بین الاقوامی تناظر اور انسانی حقوق
یہ معاملہ صرف جنوبی کوریا یا امریکہ تک محدود نہیں، بلکہ عالمی سطح پر جنگی علاقوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم پر روشنی ڈالتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ:
"یہ مقدمہ اس بات کی نظیر بن سکتا ہے کہ کیسے جنگ اور سیکیورٹی کے نام پر خواتین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا، اور اب وہی خواتین انصاف کی متلاشی ہیں۔”
انصاف کی دیر، مگر امید باقی ہے
جنوبی کوریا کی ان درجنوں خواتین نے جنہیں کبھی خاموش رہنے پر مجبور کیا گیا، اب نہ صرف اپنی کہانی سنا دی ہے بلکہ قانونی اور اخلاقی میدان میں بھی کھڑی ہو گئی ہیں۔
یہ مقدمہ دنیا بھر کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ریاستی پالیسیوں کی آڑ میں کیے گئے جرائم کبھی فراموش نہیں ہوتے۔
متاثرہ خواتین کے وکیل کے مطابق:
"یہ صرف پیسے کا معاملہ نہیں، بلکہ عزت، شناخت، اور انصاف کی جنگ ہے — اور یہ جنگ ہم ضرور جیتیں گے۔”