اہم خبریںبین الاقوامی

دوحہ میں عرب و مسلم ممالک کا تاریخی سربراہی اجلاس: اسرائیلی حملے کی شدید مذمت، علاقائی خودمختاری اور سفارتکاری کے تحفظ پر زور

"یہ حملہ قطر کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے، جسے ہر سطح پر رد کیا جائے گا۔"

دوحہ (رپورٹ: بین الاقوامی امور ڈیسک وائس آف جرمنی):
رواں اختتامِ ہفتہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب اور مسلم ممالک کا ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جو خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، بالخصوص حالیہ اسرائیلی حملے کے تناظر میں اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے عالمی و علاقائی رہنما اسرائیل کے حالیہ اقدام کو خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں اور ایک متفقہ عرب و مسلم ردعمل کی تشکیل پر غور کر رہے ہیں۔


قطر پر اسرائیلی حملہ: ایک نئی سفارتی دہلیز کی خلاف ورزی

اسرائیل نے رواں ہفتے کے آغاز پر دوحہ کے مضافات میں کیے گئے ایک حملے میں مبینہ طور پر حماس کے پانچ رہنماؤں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک قطری سیکیورٹی اہلکار بھی جاں بحق ہوا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر براہ راست حملہ کیا ہے، جس پر خلیجی ریاستوں، اسلامی دنیا اور کئی عالمی طاقتوں نے شدید احتجاج کیا ہے۔

قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان مجید الانصاری نے کہا ہے کہ:

"یہ حملہ قطر کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے، جسے ہر سطح پر رد کیا جائے گا۔”


دوحہ سمٹ کا انعقاد: اتحاد، یکجہتی اور متفقہ پیغام کی ضرورت

قطر کی میزبانی میں ہونے والا یہ اجلاس عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے ارکان پر مشتمل ہے، جس میں درجنوں سربراہانِ مملکت، وزرائے خارجہ اور اعلیٰ سفارتی حکام شرکت کر رہے ہیں۔

اتوار کو وزارتی سطح پر ایک مشترکہ قرارداد کا مسودہ تیار کیا جائے گا، جس پر پیر کے روز سربراہی اجلاس میں غور و خوض اور منظوری کی توقع ہے۔ یہ قرارداد نہ صرف اسرائیلی حملے کی شدید مذمت پر مبنی ہو گی بلکہ خطے میں طاقت کے توازن، خودمختاری کے تحفظ اور سفارتی عمل کی بحالی پر زور دے گی۔


عالمی و علاقائی رہنماؤں کی شرکت

شرکت کرنے والے اہم رہنماؤں میں شامل ہیں:

  • ایرانی صدر مسعود پزشکیان

  • عراقی وزیر اعظم محمد شیعہ السوڈانی

  • ترک صدر رجب طیب ایردوان (شرکت کی تصدیق متوقع)

  • مصری وزیر خارجہ

  • سعودی ولی عہد کے نمائندے

  • پاکستانی وزیر خارجہ یا صدر

یہ اجلاس خطے کی موجودہ صورتحال میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ صرف مذمت پر مبنی ردعمل نہیں بلکہ ایک واضح مشترکہ حکمتِ عملی کے اعلان کا امکان رکھتا ہے۔


تجزیہ کاروں کی رائے: اسرائیل کے لیے پیغام

کنگز کالج لندن کے تجزیہ کار اینڈریاس کریگ کے مطابق:

"اسرائیل کے حملے کو خلیج میں خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور سفارتی عمل کے خلاف جارحیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس دراصل اسرائیل کو ایک واضح پیغام دینے کے لیے منعقد ہو رہا ہے کہ:

  • سفارتی حدود کی خلاف ورزی کو معمول نہیں بننے دیا جائے گا

  • استثنیٰ کے تحت کارروائیاں اب مزید برداشت نہیں کی جائیں گی

  • عرب و مسلم ممالک اب یکجہتی کے ساتھ ردعمل دینے کے لیے تیار ہیں


قطر کا کردار: ثالثی سے حملے کا نشانہ بننے تک

قطر طویل عرصے سے غزہ جنگ میں امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ملک میں امریکی سینٹرل کمانڈ کا سب سے بڑا اڈہ بھی موجود ہے، جو خلیجی خطے میں امریکہ کی حکمت عملی کا اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔

تاہم اسرائیلی حملے نے قطر کو ثالث کے بجائے متاثرہ فریق بنا دیا ہے، جس کے بعد قطر نے اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات پر نظرثانی کا عندیہ بھی دیا ہے۔


متوقع قرارداد: کن نکات پر مبنی ہو سکتی ہے؟

دوحہ اجلاس میں جو قرارداد پیش کی جائے گی، اس میں ممکنہ طور پر درج ذیل نکات شامل ہوں گے:

  1. قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت

  2. خطے کی خودمختاری کی پاسداری پر زور

  3. اسرائیل کے خلاف مشترکہ سفارتی اقدامات کی منظوری

  4. عالمی برادری سے فوری مداخلت اور مذمت کا مطالبہ

  5. فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور غزہ پر جاری حملوں کے خاتمے کا مطالبہ

  6. اقوام متحدہ میں مشترکہ قرارداد پیش کرنے کی تجویز


 ایک نئے اتحاد کا آغاز؟

دوحہ سمٹ نہ صرف ایک ردعمل کا فورم ہے بلکہ عرب و مسلم دنیا کے لیے ایک موقع بھی ہے کہ وہ اپنی آواز کو مؤثر انداز میں یکجا کریں۔ یہ اجلاس خطے کے لیے ایک نئی سفارتی سمت کا تعین بھی کر سکتا ہے، جہاں طاقتور ممالک کی یکطرفہ کارروائیوں کو اجتماعی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے۔

اگر اس سمٹ سے متفقہ موقف اور عملی اقدامات سامنے آتے ہیں، تو یہ عرب و مسلم دنیا کی سفارتی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی جانب ایک اہم قدم ہو گا۔


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button