پاکستاناہم خبریں

پاکستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے درمیان اہم رابطہ: عالمی، معاشی اور اسٹریٹجک تعاون پر تبادلہ خیال

یہ رابطہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو مشرق وسطیٰ کے اہم دورے، خاص طور پر اسرائیل روانہ ہونے والے تھے، اور روانگی سے قبل انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے تفصیلی گفتگو کی۔

 سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی کے ساتھ:

پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ دنوں میں دوطرفہ تعلقات میں نمایاں بہتری اور تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور پاکستان کے وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے درمیان ایک اہم ٹیلیفونک رابطہ ہوا، جس میں عالمی حالات، علاقائی تناظر اور معاشی تعاون کے نئے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا اور انہیں مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ گفتگو کے دوران علاقائی سلامتی، تجارتی روابط، ڈیجیٹل معیشت، توانائی کے شعبے، کریٹیکل منرلز اور ریئل اسٹیٹ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون پر زور دیا گیا۔


امریکہ پاکستان تعلقات میں بہتری: ایک نئی ‘ری سیٹ’ کا آغاز؟

سفارتی ذرائع اور تجزیہ کاروں کے مطابق، حالیہ مہینوں میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں جو گرمجوشی دیکھنے میں آئی ہے، وہ گزشتہ کئی برسوں میں اپنی نوعیت کی ایک بڑی پیش رفت ہے۔ مبصرین اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک "ری سیٹ” یا نئے توازن کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جہاں پاکستان اب امریکہ کے ساتھ معاشی، سیکیورٹی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں گہرے تعلقات چاہتا ہے۔

یہ رابطہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو مشرق وسطیٰ کے اہم دورے، خاص طور پر اسرائیل روانہ ہونے والے تھے، اور روانگی سے قبل انہوں نے پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے تفصیلی گفتگو کی۔


ٹرمپ کا کردار اور بھارت کی ناراضی

حالیہ پس منظر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کا ایک بڑا سبب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا وہ کردار رہا ہے جو انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی جنگی کشیدگی کو کم کرنے میں ادا کیا۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان کی بار بار تعریف اور مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے پاکستان میں ایک مثبت تاثر پیدا کیا، حالانکہ بھارت اس سلسلے میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو مسترد کرتا رہا ہے۔

بھارت کا مؤقف رہا ہے کہ دہلی اور اسلام آباد کو اپنے معاملات دو طرفہ بنیادوں پر ہی حل کرنے چاہییں، اور وہ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اس پورے عمل میں امریکہ کو کریڈٹ دینے سے بھی گریز کیا۔


معاشی تعلقات: بڑھتی ہوئی برآمدات اور نئی سمتیں

پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاشی تعاون میں بھی واضح بہتری آئی ہے۔ جولائی 2024 سے فروری 2025 کے دوران پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ سال 2023 اور 2024 میں پاکستان نے امریکہ کو تقریباً 5.5 ارب ڈالر کی برآمدات کیں، جو ایک ریکارڈ سطح ہے۔

اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ وہ اس تعاون کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے تاکہ معیشت کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نکالا جا سکے۔ خاص طور پر ڈیجیٹل کرنسی، توانائی، معدنی وسائل اور ریئل اسٹیٹ کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ پاکستان کے لیے بے حد اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

دفتر خارجہ کے مطابق، دونوں ممالک اس وقت کثیر جہتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے پُرعزم ہیں، اور یہ رجحان مستقبل میں بڑے تجارتی معاہدوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔


رکاوٹیں بھی موجود: بھارت کو تجارتی جھٹکا

حالانکہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک نیا تجارتی معاہدہ جولائی میں حتمی شکل کے قریب تھا، تاہم اسی دوران امریکہ نے بھارت کے لیے ٹیرف کی شرح میں غیر معمولی اضافہ کر دیا، جس سے نئی دہلی اور واشنگٹن کے تجارتی تعلقات میں کچھ تلخی پیدا ہوئی۔ اس سے بظاہر پاکستان کے لیے نئی تجارتی راہیں کھلنے کا امکان پیدا ہوا، لیکن یہ بھی ایک حساس توازن ہے جسے اسلام آباد کو بڑی احتیاط سے سنبھالنا ہوگا۔


مستقبل کی راہیں: تعاون یا دباؤ؟

اگرچہ موجودہ رجحانات امید افزا ہیں، تاہم بعض ماہرین یہ بھی باور کرا رہے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات بعض اوقات سیاسی و جغرافیائی دباؤ کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ توازن برقرار رکھتے ہوئے واشنگٹن کے ساتھ بھی گہرے تعلقات قائم کرے۔ یہ ایک نازک توازن ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔

تاہم، پاکستان کی خارجہ پالیسی کے موجودہ خدوخال یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام آباد عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن اور خود مختار تعلقات کی پالیسی پر کاربند رہنا چاہتا ہے۔


نتیجہ: ایک نئے دور کا آغاز؟

مارکو روبیو اور اسحاق ڈار کے درمیان حالیہ رابطہ نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی جہتوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ عالمی اسٹریٹجک منظرنامے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ کے لیے پاکستان اب محض ایک سیکیورٹی پارٹنر نہیں بلکہ ایک ممکنہ معاشی و تجارتی اتحادی کے طور پر بھی اہمیت حاصل کر رہا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان اگر یہی رجحان جاری رہا، تو مستقبل میں نہ صرف بڑے معاہدے متوقع ہیں بلکہ پاکستان کے لیے عالمی سیاست میں نئی راہیں بھی کھل سکتی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button