ایلون مسک نے برطانیہ کو ‘انقلابی تبدیلی’ کا پیغام دیا، امیگریشن مخالف ریلی میں حکومت کو للکارا
انہوں نے “woke mind virus” جیسے الفاظ سے بیانیے کی پزیرائی کی، اور کہا کہ ریاستیں صرف لوگوں اور عوام کے لیے ہونی چاہئیں، بیوروکریسی کی نہیں جو عوام کی آواز نہ سنے۔
لندن (بین الاقوامی رپورٹر) – دنیا کے امیر ترین شخض ایلون مسک نے ہفتے کے روز لندن میں انتہائی دائیں بازو کی امیگریشن مخالف ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حکومتِ برطانیہ پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ملک کو “انقلابی حکومت کی تبدیلی” کی ضرورت ہے۔ یہ ریلی ٹومی رابنسن (سٹیفن یاکسلے-لینن) کی قیادت میں منعقد ہوئی تھی اور تقریباً ۱۱۰,۰۰۰ افراد نے شرکت کی۔
مکمل خطاب اور کلیدی نکات
مسک نے ویڈیو لنک کے ذریعے مظاہرے کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
-
“Massive uncontrolled migration” کے باعث برطانیہ کی تہذیب اور معاشرت کو تباہی کا سامنا ہے۔
-
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ تحلیل کی جائے اور عام انتخابات جلدی منعقد ہونا چاہییں، کیونکہ موجودہ نظام عوام کی تکالیف کا جواب نہیں دے رہا۔“شو تو لڑو یا مر جاؤ” جیسے جملے استعمال کیے، جس سے مخاطبوں میں اضطراب اور اشتعال پیدا ہونے کا امکان ہے۔
-
انہوں نے “woke mind virus” جیسے الفاظ سے بیانیے کی پزیرائی کی، اور کہا کہ ریاستیں صرف لوگوں اور عوام کے لیے ہونی چاہئیں، بیوروکریسی کی نہیں جو عوام کی آواز نہ سنے۔
ریلی کا پس منظر اور مظاہرین کا دعویٰ
-
یہ ریلی “Unite the Kingdom” کے نام سے جانی جائے گی، جس کا مقصد امیگریشن، سرحدی پالیسیوں اور معاشرتی تبدیلیوں کے خلاف عوامی خدشات کو آواز دینا ہے۔
-
مظاہرین نے برانڈنڈ پرچم، Union Jack اور St. George’s Cross سمیت مختلف قومی اور ثقافتی علامات لہرائیں، اور حکومت کی امیگریشن، پناہ گزین پالیسی، اور “قومی شناخت” کے مسائل پر سوال اٹھائے۔
پولیس اور حکومت کا ردعمل
-
لندن میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا کہ مظاہرے کے دوران ۲۴ افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ ۲۶ پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے کچھ کی حالت تشویشناک تھی۔
-
برطانوی حکومت نے مسک کے بیانات کی سخت تنقید کی ہے۔ بزنس سکریٹری پیٹر کائل نے کہا کہ یہ کلمات “بالکل نامناسب” اور سمجھ سے باہر ہیں۔
-
وزیر اعظم کی جماعت لیبر کے رہنما بھی بیانیے کے خطرات کی طرف متوجہ ہوئے، اور قوم کو تقسیم کرنے والے جذبات کو انتہا پسند قرار دیا گیا۔
سیاسی و سماجی اثرات
-
اس مظاہرے اور مسک کے خطاب نے برطانیہ میں امیگریشن، سنسرشپ، آزادی اظہار، اور حکومت کی شفافیت جیسے موضوعات پر بحث کو بڑھا دیا ہے۔ عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا حکومت کی پالیسیاں عوامی جذبات سے ہم آہنگ ہیں۔
-
مسک کا مؤقف اس تناظر میں ہے کہ عوام اب “بے صبری” محسوس کر رہے ہیں – امیگریشن کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی، پناہ گزینوں کی آمد، اور حکومت کی جانب سے عوامی تحفظ کے فقدان کے باوجود اظہارِ خیال کی آزادی۔
تنقیدی جائزہ اور مباحثے
-
کچھ حلقوں نے مسک کے الفاظ کو انتہائی جذباتی اور خطرناک بیان بازاری قرار دیا ہے، جن سے نسل پرستانہ اور امیگریشن مخالف بیانیے کو ہوا مل سکتی ہے۔
-
اس کے علاوہ، سوال اٹھایا گیا ہے کہ ایک غیر ملکی ارب پتی کا مقامی سیاسی مظاہرے میں مداخلت کرنا جمہوریت اور سابقہ انتخابی روایات کے لیے کتنا مناسب ہے؟
-
حکومت کا مؤقف ہے کہ آزادی اظہار اہم ہے، لیکن تشدد اور نفرت انگیز بیانات کو کنٹرول کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔
نتیجہ
ایلون مسک کا خطاب برطانیہ میں ایک نئی سیاسی کشمکش کی نشاندہی کرتا ہے۔ امیگریشن، تنوع، آزادی اظہار، اور عوامی تحفظ کے موضوعات عوامی مباحثے کی مرکزی حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ مستقبل میں عوام کی رائے اور الیکشن نتائج سے ہی پتہ چلے گا کہ یہ بیانیہ کتنا اثر انداز ہو سکتا ہے۔


