یورپاہم خبریں

گرین لینڈ کے دفاع میں اضافہ: روس اور چین خطرہ یا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ؟

"ہم فی الوقت گرین لینڈ کے لیے براہ راست کوئی بڑا خطرہ نہیں دیکھتے، نہ روس کی جانب سے، نہ چین کی۔ لیکن ہمیں تیار رہنا ہوگا۔"

بین الاقوامی امور ڈیسک 

جنوب مغربی گرین لینڈ میں ایک نئی سرد جنگ کی گونج

دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کے جنوبی حصے میں، جہاں بے شمار برفیلے fjords آرکٹک سمندر میں گرتے ہیں، وہاں ڈنمارک کے جنگی جہاز ایک نئے مشن پر سرگرم ہیں۔ ان کا ہدف صرف سمندری نگرانی نہیں، بلکہ ایک بڑھتی ہوئی بین الاقوامی کشمکش میں اپنی فوجی موجودگی کو واضح پیغام دینا ہے۔

آرکٹک خطہ، جو کبھی خاموش اور دور دراز سمجھا جاتا تھا، اب دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی، اقتصادی اور دفاعی کشمکش کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔


ڈنمارک کی نوآبادیاتی ذمہ داری سے عسکری چوکسی تک

گرین لینڈ، اگرچہ اندرونی خودمختاری رکھتا ہے، اب بھی ڈنمارک کی خارجی، دفاعی اور مالی پالیسی کے تحت ہے۔ تین صدیوں سے، یہ چھوٹی سی یورپی بادشاہت یہاں حکمرانی کر رہی ہے۔ لیکن اب اسے غیر معمولی دباؤ اور چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں صرف بیرونی خطرات ہی نہیں، بلکہ اپنے اتحادیوں کی اندرونی سیاست بھی شامل ہے۔

ڈنمارک کی جوائنٹ آرکٹک کمانڈ کے سربراہ میجر جنرل سورین اینڈرسن کے مطابق،

"ہم فی الوقت گرین لینڈ کے لیے براہ راست کوئی بڑا خطرہ نہیں دیکھتے، نہ روس کی جانب سے، نہ چین کی۔ لیکن ہمیں تیار رہنا ہوگا۔”


روس اور چین: برفیلے پانیوں میں غیر مرئی موجودگی

روس یوکرین جنگ میں مصروف ضرور ہے، لیکن مغربی ماہرین اور نیٹو افسران اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ کے بعد روس آرکٹک پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا۔ روس کے پاس پہلے ہی آرکٹک میں درجنوں فوجی اڈے، ایئر اسٹریپس اور ایٹمی آبدوزیں موجود ہیں۔

اسی دوران چین، جو اپنے آپ کو "قریب آرکٹک ریاست” قرار دیتا ہے، نہ صرف آرکٹک انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے بلکہ روسی جہازوں کے ساتھ مشترکہ گشت اور مشقوں میں بھی حصہ لے رہا ہے۔ چین کا "Polar Silk Road” منصوبہ واضح کرتا ہے کہ بیجنگ آرکٹک کو محض سرد صحرائی خطہ نہیں، بلکہ مستقبل کی عالمی تجارت کا ایک نیا دروازہ سمجھتا ہے۔


گرین لینڈ: صرف برف نہیں، دولت اور جغرافیائی طاقت بھی

گرین لینڈ کے پہاڑ نایاب معدنیات، تیل، گیس اور یورینیم سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جزیرہ GIUK Gap میں واقع ہے — وہ اسٹریٹیجک سمندری راستہ جو روسی بحریہ کو بحرِ شمالی اوقیانوس میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ یہ خطہ نیٹو کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔


اصل خطرہ: واشنگٹن سے آنے والی صدائیں؟

حالیہ برسوں میں، روس اور چین کے خطرات تو عالمی میڈیا میں زیر بحث رہے ہیں، لیکن ڈنمارک کی پالیسیوں میں سب سے چونکا دینے والا عنصر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ پر نظر رکھنے والا مؤقف ہے۔

ٹرمپ، جو دسمبر 2024 میں دوبارہ صدر بنے، نے اپنے انتخابی مہم کے دوران اور بعد میں بارہا کہا کہ:

"ریاستہائے متحدہ امریکہ کو گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے قومی مفادات کے لیے ضروری ہے۔”

انہوں نے سرکاری طور پر طاقت کے استعمال کو مسترد کیا، لیکن ان کے انداز اور بیانات نے ڈنمارک میں تشویش پیدا کر دی۔


ڈنمارک کا ردعمل: فوجی اور سفارتی اقدامات

ڈنمارک نے 2025 کے اوائل میں اعلان کیا کہ وہ آرکٹک دفاعی اخراجات میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ کا اضافہ کرے گا۔ اس کے تحت:

  • "آرکٹک لائٹ” کے نام سے تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشق کی گئی۔

  • ایک نیا آرکٹک اسپیشل فورسز گروپ تشکیل دیا گیا۔

  • نئے بحری جہاز، طویل فاصلے تک مار کرنے والے ڈرونز اور دیگر دفاعی ٹیکنالوجی خریدی جا رہی ہے۔

  • یورپی ساختہ فضائی دفاعی نظام پر 9 ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، حالانکہ ماضی میں یہ معاہدے تقریباً ہمیشہ امریکی سپلائرز کو دیے جاتے تھے۔

یہ آخری نکتہ خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ ایک مغربی سفارت کار کے مطابق:

"ایک سال پہلے، امریکی کمپنیاں یہ معاہدے آسانی سے جیت لیتیں۔ لیکن اب، ٹرمپ کے بیانات نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم متبادل تلاش کریں۔”


خطرہ صرف فوجی نہیں، سیاسی اور سفارتی بھی ہے

ڈنمارک کے لیے مسئلہ صرف یہ نہیں کہ روس یا چین آرکٹک میں سرگرم ہیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ جیسا قریبی اتحادی بھی غیر متوقع طرز عمل اختیار کرے تو دفاعی توازن بگڑ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کوپن ہیگن میں دفاعی پالیسی ساز واشنگٹن کی سیاسی تبدیلیوں کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ گرین لینڈ کے مقامی عوام اور سیاسی رہنما بھی اس بڑھتی ہوئی عالمی دلچسپی سے پریشان ہیں، کیونکہ ان کے جزیرے کی سرزمین کو عالمی طاقتوں کے بیچ ایک اسٹریٹیجک مہرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔


نتیجہ: آرکٹک کی خاموشی میں گونجتی فوجی بوٹوں کی چاپ

گرین لینڈ اب صرف ایک دور افتادہ، برف سے ڈھکی ہوئی سرزمین نہیں رہی۔ یہ دنیا کی اگلی بڑی جغرافیائی کشمکش کا مرکز بنتی جا رہی ہے، جہاں نہ صرف روس اور چین کی نظریں لگی ہیں، بلکہ امریکی قیادت کے غیر متوقع رویے نے بھی نئے دفاعی، سفارتی اور سیاسی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

اور جب تک دنیا کی بڑی طاقتیں آرکٹک میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش جاری رکھیں گی، گرین لینڈ کی برف کے نیچے دبی ہوئی کشمکش کی آگ مزید بھڑکتی رہے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button