پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

بلوچستان: ضلع شیرانی میں شدت پسندوں کا لیویز اور پولیس تھانوں پر منظم حملہ — ایک پولیس اہلکار شہید، دو زخمی، ایک لاپتہ

’یہ حملہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ حملہ آور دونوں تھانوں پر بیک وقت حملہ کر کے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے تھے۔

 وائس آف جرمنی نمائندہ خصوصی

بلوچستان کا ضلع شیرانی ایک بار پھر شدت پسندوں کے نشانے پر آ گیا، جہاں خیبرپختونخوا کی سرحد سے متصل علاقے میرعلی خیل میں واقع پولیس اور لیویز کے تھانوں پر بیک وقت حملہ کیا گیا۔ اس منظم حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہو گیا، دو لیویز اہلکار زخمی ہوئے، جبکہ ایک اہلکار کے لاپتہ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ واقعے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے، جبکہ فضا میں شدید خوف و ہراس چھا گیا ہے۔


واقعے کی تفصیل: رات کی تاریکی میں دہشت کی یلغار

یہ افسوسناک واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب پیش آیا، جب 15 سے زائد شدت پسندوں نے جدید ہتھیاروں سے لیویز تھانہ میرعلی خیل اور چند ہی قدموں کے فاصلے پر موجود پولیس تھانے کو نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے خودکار ہتھیاروں کے ساتھ اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پولیس کانسٹیبل الطاف تھانے کی چھت پر فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔

اس حملے میں لیویز سپاہی کالو خان اور واحد خان شدید زخمی ہوئے، جنہیں فوری طور پر سول ہسپتال ژوب منتقل کر دیا گیا۔ حملہ آور تھانے پر قبضے کے بعد وہاں کھڑی ایک سرکاری گاڑی کو بھی آگ لگا کر خاکستر کر گئے۔


ایک اہلکار لاپتہ، اغواء کا خدشہ

حملے کے دوران ایک لیویز سپاہی اعظم خان لاپتہ ہو گئے ہیں۔ لیویز حکام کو خدشہ ہے کہ شدت پسند انہیں اغواء کر کے ساتھ لے گئے ہیں۔ واقعے کے فوری بعد سیکیورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، جبکہ ژوب، موسیٰ خیل اور دیگر قریبی علاقوں سے مزید نفری طلب کی گئی ہے۔


ڈپٹی کمشنر کی تصدیق

ڈپٹی کمشنر شیرانی حضرت ولی کاکڑ نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا:

’’یہ حملہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ حملہ آور دونوں تھانوں پر بیک وقت حملہ کر کے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے تھے۔ پولیس اور لیویز اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں کئی حملہ آور زخمی بھی ہو سکتے ہیں، تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘


فائرنگ کا تبادلہ اور حملہ آوروں کی پسپائی

عینی شاہدین اور مقامی ذرائع کے مطابق، فائرنگ کا تبادلہ نصف گھنٹے سے زائد جاری رہا، جس دوران پورے علاقے میں گولیوں کی آوازیں گونجتی رہیں۔ شدید فائرنگ کے بعد حملہ آور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہاڑی علاقوں کی طرف فرار ہو گئے۔ ان کے فرار کے بعد جائے وقوعہ پر پولیس، لیویز اور اے ٹی ایف (انسداد دہشت گردی فورس) کی بھاری نفری پہنچ گئی۔


ملزمان کون؟ شبہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان پر

اگرچہ تاحال کسی تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم سیکیورٹی ذرائع اور مقامی حکام کے مطابق اس حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بلوچستان کے قبائلی اور سرحدی اضلاع میں اس سے قبل بھی اس تنظیم کی کارروائیوں کے شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے شدت پسند ماضی میں ژوب، لورالائی، قلعہ سیف اللہ اور شیرانی جیسے اضلاع میں پولیس، لیویز اور ایف سی کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔


علاقے میں خوف و ہراس، سیکیورٹی ہائی الرٹ

واقعے کے بعد ضلع شیرانی اور گردونواح میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ لیویز، پولیس اور ایف سی نے مل کر علاقے میں تلاشی کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، جبکہ داخلی و خارجی راستوں پر چیک پوسٹیں سخت کر دی گئی ہیں۔

مقامی افراد واقعے کے بعد خوفزدہ ہیں اور سیکیورٹی کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا:

’’ہم نے ایسا خوفناک منظر پہلی بار دیکھا ہے۔ گولیاں ہر طرف چل رہی تھیں، بچوں اور عورتوں کو زمین پر لٹا کر حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘


حکومتی ردعمل اور اقدامات

تاحال بلوچستان حکومت کی جانب سے اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اور اعلیٰ حکام نے رپورٹس طلب کر لی ہیں اور واقعے کی مکمل تحقیقات کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔

مزید برآں، سیکیورٹی اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ علاقے میں شدت پسندوں کے ممکنہ نیٹ ورک کو فوری طور پر ختم کرنے کے لیے اقدامات تیز کیے جائیں۔


علاقے میں شدت پسندی کی نئی لہر؟

یہ واقعہ بلوچستان میں شدت پسندی کی نئی ممکنہ لہر کی نشاندہی کرتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی خطرے کی علامت ہے۔


نتیجہ: امن کے دشمن ایک بار پھر سرگرم

ضلع شیرانی میں یہ افسوسناک واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شدت پسند عناصر اب بھی ہمارے سیکیورٹی نظام کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ اس حملے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور خفیہ اداروں کی فعالیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی ادارے مربوط حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہوئے نہ صرف شدت پسندوں کا قلع قمع کریں بلکہ علاقے میں مستقل امن کے قیام کو یقینی بنائیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button