مشرق وسطیٰاہم خبریں

برطانیہ میں فلسطینی پرچم لہرانے کی تقریب: فلسطینی سفیر ڈاکٹر حسام زوملوت کی قیادت میں اظہارِ یکجہتی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قبل عالمی توجہ کا مرکز

"آج جب ہم یہاں لندن کی سرزمین پر فلسطینی پرچم بلند کر رہے ہیں، تو یہ محض ایک علامتی عمل نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کو ایک واضح پیغام ہے کہ فلسطین زندہ ہے، فلسطینی قوم بیدار ہے، اور ہماری جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔"

لندن (بین الاقوامی رپورٹر) — برطانیہ میں تعینات فلسطینی سفیر ڈاکٹر حسام زوملوت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل لندن میں منعقدہ ایک اہم تقریب میں شرکت کی، جس میں فلسطینی پرچم کو فخر اور جوش و جذبے کے ساتھ بلند کیا گیا۔ اس موقع پر فلسطین کے حقِ خودارادیت، آزادی اور ریاستی حیثیت کے حصول کے لیے جدوجہد کو اجاگر کیا گیا، اور دنیا کو فلسطینی عوام کی مشکلات اور حقوق کی یاد دہانی کرائی گئی۔

تقریب میں انسانی حقوق کے کارکنان، برطانوی سیاستدان، مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنما، سول سوسائٹی کے نمائندے اور بڑی تعداد میں فلسطینی کمیونٹی کے افراد شریک تھے۔ شرکاء نے فلسطینی پرچم کو فضا میں بلند ہوتے دیکھا تو جذباتی مناظر سامنے آئے، جن میں خوشی، فخر اور امید کا امتزاج نمایاں تھا۔


ڈاکٹر حسام زوملوت کا خطاب: "ہماری جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے، اور ہماری ریاست ایک حقیقت بنے گی”

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر حسام زوملوت نے کہا:

"آج جب ہم یہاں لندن کی سرزمین پر فلسطینی پرچم بلند کر رہے ہیں، تو یہ محض ایک علامتی عمل نہیں، بلکہ یہ پوری دنیا کو ایک واضح پیغام ہے کہ فلسطین زندہ ہے، فلسطینی قوم بیدار ہے، اور ہماری جدوجہد رائیگاں نہیں جائے گی۔”

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے اپنی سرزمین، وقار اور آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ "ہماری تحریک کسی کے خلاف نہیں بلکہ اپنے ناقابل تنسیخ حقوق کے حصول کے لیے ہے۔”

ڈاکٹر زوملوت نے برطانوی عوام اور حکومت پر زور دیا کہ وہ انصاف، انسانی حقوق، اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں فلسطین کے حق میں مؤقف اپنائیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ تاریخی طور پر مسئلہ فلسطین میں ایک کردار رکھتا ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس کردار کو مثبت سمت میں لے جائے۔


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی: فلسطین کے مستقبل پر عالمی نگاہیں

یہ تقریب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے چند روز قبل منعقد ہوئی، جہاں فلسطین کی ریاستی حیثیت، اسرائیلی مظالم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مشرق وسطیٰ میں امن کے امکانات پر بحث متوقع ہے۔

ڈاکٹر زوملوت نے اس عالمی اجلاس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ:

"جنرل اسمبلی میں فلسطین کی آواز گونجے گی۔ ہم دنیا کو یاد دلائیں گے کہ غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں جو ہو رہا ہے، وہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔”


برطانوی عوام کی بڑھتی ہوئی حمایت

اس موقع پر کئی برطانوی شہریوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور پارلیمنٹ کے اراکین نے فلسطینی عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مقررین نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور فلسطین کو ایک آزاد، خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے مطالبے کو دہرایا۔

تقریب میں موجود ایک برطانوی کارکن کا کہنا تھا:

"ہم آج یہاں اس لیے جمع ہیں کیونکہ ہم انسانیت، انصاف اور عالمی قوانین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فلسطینیوں کو وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو دنیا کی ہر قوم کو حاصل ہیں۔”


تقریب کے اختتام پر دعائیں اور امیدیں

تقریب کے آخر میں فلسطین کے شہداء کے لیے دعا کی گئی، اور مظلوم فلسطینی عوام کی آزادی، امن اور خوشحالی کے لیے نعرے لگائے گئے۔ فلسطینی پرچم کے سائے تلے بچوں نے "آزاد فلسطین” کے نعرے لگائے، اور حاضرین نے فلسطینی روایتی لباس میں ملبوس بچوں کو پھولوں کے ہار پہنائے۔

ایک فلسطینی بزرگ خاتون، جو 1948 کی ہجرت کی عینی شاہد تھیں، نے آنکھوں میں آنسو لیے کہا:

"آج یہ پرچم ہمیں امید دے رہا ہے کہ شاید اگلی نسل کو وہ دن دیکھنے کو ملے جب فلسطین آزاد ہوگا، اور ہم اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے۔”


نتیجہ: ایک علامتی دن، لیکن ایک تاریخی جدوجہد کا تسلسل

یہ تقریب محض پرچم کشائی کی ایک تقریب نہیں تھی، بلکہ یہ فلسطینی عوام کی طویل جدوجہد، ان کے صبر، قربانیوں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش تھی۔ ڈاکٹر حسام زوملوت کی قیادت میں فلسطینی سفارت کاری ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر مؤثر انداز میں ابھرتی دکھائی دی، اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کی گونج سنائی دینے کی امید ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button