یورپاہم خبریں

نیو اسٹارٹ معاہدے میں توسیع کی روسی پیشکش: صدر پوٹن نے ٹرمپ کو جوہری توازن برقرار رکھنے کی نئی راہ دکھا دی

"روس اس بات پر تیار ہے کہ نیو اسٹارٹ معاہدے میں مزید ایک سال کی توسیع کی جائے تاکہ مستقبل کے جوہری معاہدے پر کھلے دل سے بات چیت ہو سکے۔ تاہم، یہ توسیع مشروط ہے۔

ماسکو / واشنگٹن (بین الاقوامی خبر رساں ادارے) — روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اسٹریٹیجک جوہری ہتھیاروں کی تخفیف سے متعلق اہم معاہدے "نیو اسٹارٹ” (New START) میں ایک سال کی توسیع کی رسمی پیشکش کی ہے۔ پوٹن کا یہ اقدام دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان موجودہ تناؤ، یوکرین جنگ، اور بین الاقوامی اسٹریٹیجک توازن کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

نیو اسٹارٹ معاہدہ، جس پر 2010 میں دستخط ہوئے تھے، 5 فروری 2026 کو اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ اور روس دونوں اپنے اسٹریٹیجک جوہری وارہیڈز کی تعداد 1,550 تک محدود رکھنے کے پابند ہیں۔ اس کے علاوہ لانچرز اور میزائل سسٹمز کی تعیناتی پر بھی نگرانی اور شفافیت کی شرائط رکھی گئی ہیں۔


پوٹن کی پیشکش: مشروط توسیع، طاقت کے توازن کے تحفظ پر زور

صدر پوٹن نے ماسکو میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا:

"روس اس بات پر تیار ہے کہ نیو اسٹارٹ معاہدے میں مزید ایک سال کی توسیع کی جائے تاکہ مستقبل کے جوہری معاہدے پر کھلے دل سے بات چیت ہو سکے۔ تاہم، یہ توسیع مشروط ہے۔ امریکہ کو بھی اسی حد کا احترام کرنا ہوگا، اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو طاقت کے اسٹریٹیجک توازن کو متاثر کرے۔”

پوٹن نے واشنگٹن کو خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے اپنے میزائل ڈیفنس سسٹمز کو مزید وسعت دی یا خلائی ہتھیاروں کے میدان میں قدم بڑھایا، تو روس اس کا "مناسب اور فیصلہ کن جواب” دے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوہری توازن صرف کاغذی معاہدوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہوتا ہے۔ "ہم اپنی قومی سلامتی کو کسی بھی قیمت پر کمزور نہیں ہونے دیں گے، لیکن ہم مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں۔”


ٹرمپ کا کردار: یوکرین جنگ پر دباؤ، لیکن اب تک خاموشی

پوٹن کی یہ تجویز ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ، جو ممکنہ طور پر 2024 کے صدارتی انتخابات میں دوبارہ امیدوار ہوں گے، یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے روس پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ماضی میں یوکرین کو فوجی امداد دینے کی مخالفت کی تھی اور روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی وکالت کی تھی، جس پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

تاہم، نیو اسٹارٹ معاہدے کی ممکنہ توسیع پر ٹرمپ یا ان کی ٹیم کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی مدت ختم ہونے میں صرف چار ماہ باقی ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان اس پر کوئی باضابطہ مذاکرات بھی شروع نہیں ہوئے۔


ماہرین کا ردعمل: "یہ آخری موقع ہو سکتا ہے”

بین الاقوامی دفاعی ماہرین اس پیشکش کو ایک "ڈپلومیٹک ونڈو” قرار دے رہے ہیں، جو دنیا کے دو سب سے بڑے ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کو ممکنہ طور پر نئے فریم ورک پر بات کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔

نیویارک کے انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ پروفیسر لورا ہنری کا کہنا تھا:

"نیو اسٹارٹ معاہدہ آخری بڑا معاہدہ ہے جو روس اور امریکہ کے درمیان جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا ضامن ہے۔ اگر اس میں توسیع نہ ہوئی، تو دنیا ایک نئی اسلحہ کی دوڑ کے دہانے پر کھڑی ہو سکتی ہے۔”


خطرات اور امکانات: خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ؟

روسی صدر نے خاص طور پر امریکہ کے خلا میں دفاعی نظام نصب کرنے کے منصوبوں پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ اگر امریکہ نے "اسپیس بیسڈ انٹرسیپٹرز” یا خلائی میزائل شیلڈز کی تعیناتی کی کوشش کی، تو یہ نہ صرف موجودہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہو گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اسٹریٹیجک عدم توازن کو جنم دے گی۔

ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ایسی صورت میں روس اور چین دونوں خلا میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا سکتے ہیں، جو ایک نئے قسم کی عالمی کشیدگی کو جنم دے گی۔


نیو اسٹارٹ کا مستقبل: فیصلہ کن مہینے باقی

نیو اسٹارٹ کی میعاد کے خاتمے میں صرف چار مہینے باقی رہ گئے ہیں، اور اگر دونوں فریق کسی توسیع پر متفق نہ ہوئے، تو فروری 2026 کے بعد دونوں ممالک بغیر کسی قانونی پابندی کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

اس صورتحال میں دنیا ایک مرتبہ پھر کولڈ وار کے دور جیسے خطرناک اسلحہ کی دوڑ کی جانب لوٹ سکتی ہے، جس کے اثرات نہ صرف امریکہ اور روس بلکہ پورے عالمی امن پر مرتب ہوں گے۔


نتیجہ: بات چیت کی راہ یا تصادم کا راستہ؟

صدر پوٹن کی ٹرمپ کو نیو اسٹارٹ میں ایک سال کی توسیع کی پیشکش ایک سفارتی موقع ہے، جو اگر سنجیدگی سے لیا گیا، تو جوہری تخفیف کے عالمی نظام کو نئی زندگی دے سکتا ہے۔ تاہم اگر یہ موقع ضائع ہوا تو دنیا کو ایک غیر مستحکم، غیر یقینی اور خطرناک مستقبل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اب دنیا کی نظریں واشنگٹن پر ہیں: کیا امریکہ اس پیشکش کو سنجیدگی سے لے گا؟ یا پھر آنے والے مہینے ایک نئی اسلحہ دوڑ کی بنیاد رکھیں گے؟ وقت ہی بتائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button