
مغربی ممالک کی تسلیم کاری، جرمنی اب بھی ہچکچاہٹ کا شکار
"ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کی تسلیم کاری ایک حتمی عمل ہے، جو تب ممکن ہو گا جب دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات حقیقی شکل اختیار کریں۔"
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے حال ہی میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فرانس اور بیلجیم بھی آئندہ چند روز میں ایسا کرنے جا رہے ہیں۔
اس پیش رفت نے یورپ میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا مغربی ممالک اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے میں غیرجانبدار اور منصفانہ کردار ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔
تاہم جرمن حکومت کا تاحال مؤقف یہی ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب دو ریاستی حل پر عملی پیش رفت ہو۔ جرمن وزیرِ خارجہ یوہان واڈےفیہول نے کہا:
"ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینی ریاست کی تسلیم کاری ایک حتمی عمل ہے، جو تب ممکن ہو گا جب دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات حقیقی شکل اختیار کریں۔”
واڈےفیہول نے یہ بھی کہا کہ جرمنی فوری طور پر "دو ریاستی عمل کے آغاز” کا خواہاں ہے اور فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ سنجیدہ مذاکرات کی طرف آئیں۔
دی لیفٹ کا مؤقف: اسرائیل پر اسلحہ کی پابندی اور یورپی معاہدوں کی معطلی
دی لیفٹ نے فلسطینی ریاست کی تسلیم کاری سے آگے بڑھ کر کچھ ٹھوس اقدامات کا بھی مطالبہ کیا ہے، جن میں شامل ہیں:
اسرائیل پر اسلحہ کی مکمل برآمدی پابندی عائد کی جائے؛
یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان موجود تجارتی و سفارتی معاہدے معطل کیے جائیں؛
یورپی سطح پر اسرائیل کے "انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں” پر سخت ردعمل دیا جائے؛
فلسطینی علاقوں میں فوری انسانی امداد بھیجی جائے، خاص طور پر غزہ میں جہاں موجودہ حالات تشویشناک ہیں۔
پارٹی رہنما شویرڈٹنر نے زور دیا کہ جرمنی کی پالیسی کو انسانیت اور انصاف کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے، نہ کہ صرف اسٹریٹیجک تعلقات کی بنیاد پر۔
عوامی ردعمل اور مظاہرے: برلن میں فلسطین کے حق میں جوش و خروش
دی لیفٹ کے مطالبے کے ساتھ ہی برلن، ہیمبرگ، میونخ اور دیگر شہروں میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے مظاہرے اور ریلیاں بھی منعقد ہوئیں۔ برلن کے مشہور برینڈنبرگ گیٹ کے سامنے ہزاروں افراد نے فلسطینی پرچم اٹھا کر "آزاد فلسطین” اور "انصاف، امن اور دو ریاستی حل” کے حق میں نعرے لگائے۔
مظاہرین میں شامل ایک طالبعلم لیا کولر نے کہا:
"میں یہاں اس لیے ہوں کیونکہ میں انسانیت اور انصاف پر یقین رکھتی ہوں۔ فلسطینی بچوں کی تصاویر نے میرے دل کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔”
ان مظاہروں کے دوران سیکیورٹی سخت رہی، تاہم مجموعی طور پر مظاہرے پرامن رہے۔ مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی ان احتجاجات کی حمایت کی۔
دی لیفٹ کی انتخابی واپسی اور بڑھتا ہوا اثر
دی لیفٹ جماعت، جو ایک عرصے سے جرمنی کی سیاست میں کمزور نظر آ رہی تھی، نے حالیہ انتخابات میں 8.8 فیصد ووٹ حاصل کر کے اپنی سیاسی واپسی کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی کے رہنما اب ایک متحرک اور جاندار خارجہ پالیسی کی وکالت کر رہے ہیں، جو نہ صرف مقامی سیاست بلکہ یورپی یونین کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
پارٹی کی نوجوان قیادت فلسطین، موسمیاتی تبدیلی، مزدور حقوق، اور پناہ گزینوں کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے، جسے ملک کے ترقی پسند حلقوں میں خوب سراہا جا رہا ہے۔
نتیجہ: جرمن حکومت کے لیے دباؤ میں اضافہ
دی لیفٹ کے اس مؤقف اور عوامی مظاہروں کے بعد جرمن حکومت پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کی تسلیم کاری کے حوالے سے واضح اور حتمی مؤقف اپنائے۔ یورپ میں بڑھتی ہوئی حمایت، انسانی حقوق کی تنظیموں کا دباؤ، اور فلسطینی عوام کی حالتِ زار، سب مل کر برلن کو ایک فیصلہ کن مقام پر لا کھڑا کر چکے ہیں۔
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ جرمن حکومت، جو اسرائیل کی سیکیورٹی کو "جرمن خارجہ پالیسی کا ستون” قرار دیتی ہے، کیا فلسطینی عوام کی ریاستی شناخت کو تسلیم کر کے ایک نئی سمت اختیار کرتی ہے یا روایتی مؤقف پر قائم رہتی ہے۔


