پاکستان پریس ریلیزتازہ ترین

اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کو جنوری 2026 تک ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے رولز بنانے کا حکم

"رولز بنانے ہیں تو بنائیں، ورنہ ہمارے ہائی کورٹ میں بہت قابل افسر موجود ہیں، جو ایک رات میں زبردست رولز بنا سکتے ہیں۔"

 ناصر خان خٹک-پاکستان،اسلام آباد،وائس آف جرمنی کے ساتھ:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے مقدمے کی سماعت کے دوران ادارے کو سخت الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے جنوری 2026 تک رولز (قواعد و ضوابط) بنانے کا حتمی حکم دے دیا۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگلی سماعت تک اگر قواعد نہ بنائے گئے تو ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) NCCIA کو ذاتی حیثیت میں عدالت طلب کیا جائے گا۔

"اگر رولز نہیں بنا سکتے تو ہم بنا دیتے ہیں” — جسٹس محسن اختر کیانی کے سخت ریمارکس

کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی، جنہوں نے دورانِ سماعت NCCIA اور وفاقی حکومت کے نمائندوں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارے سات مہینے سے ایک ہی بات دہرا رہے ہیں اور اب بھی کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

انہوں نے ریمارکس دیے:

"رولز بنانے ہیں تو بنائیں، ورنہ ہمارے ہائی کورٹ میں بہت قابل افسر موجود ہیں، جو ایک رات میں زبردست رولز بنا سکتے ہیں۔”

جسٹس کیانی نے مزید استفسار کیا کہ:

"تین ماہ بعد سماعت ہو رہی ہے، اور اب تک رولز نہیں بن سکے؟ اگر رولز ہی نہیں تھے تو ایجنسی کیوں بنائی گئی؟ دیگر تمام اداروں نے قواعد بنا رکھے ہیں، آپ بغیر قواعد کے لوگوں کو ملازمت پر رکھ رہے ہیں؟ اگر کوئی قانونی پابندی ہے تو ہمیں آگاہ کریں۔”

حکومتی وکیل کا موقف اور تاخیر کی وضاحت

سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے عدالت سے وقت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ پراسیس میں ہے اور جلد پیش رفت متوقع ہے۔
ساتھ ہی این سی سی آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شیخ عامر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

تاہم، عدالت نے حکومتی وکیل کی بات کو مسترد کرتے ہوئے سخت موقف اپنایا اور کہا:

"آپ پچھلے سات مہینے سے صرف باتیں کر رہے ہیں، اب کوئی ٹھوس ٹائم لائن دیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے ادارے کے لیے بروقت رولز مرتب کریں۔ اگر اگلی سماعت تک رولز تیار نہ ہوئے تو ڈی جی کو بلانا پڑے گا۔”

عدالت کی حتمی مہلت — جنوری 2026 کی ڈیڈ لائن

اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر حکم دیا کہ جنوری 2026 تک تمام رولز مرتب کیے جائیں اور ملازمین کو مستقل کرنے کا عمل مکمل کیا جائے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ یہ معاملہ اب مزید التوا کا متحمل نہیں ہو سکتا اور ملازمین کے مستقبل کو غیر یقینی میں رکھنا آئینی اور قانونی اصولوں کے منافی ہے۔

عدالت نے سماعت 13 جنوری 2026 تک ملتوی کر دی اور آئندہ سماعت میں مکمل پیش رفت رپورٹ طلب کر لی ہے۔


پس منظر: NCCIA کے کنٹریکٹ ملازمین کا قانونی تحفظ کا مطالبہ

یاد رہے کہ نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی میں کئی ملازمین سالوں سے کنٹریکٹ کی بنیاد پر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کی مستقل تقرری کے لیے تاحال کوئی قواعد وضع نہیں کیے گئے۔
ملازمین کا مؤقف ہے کہ وہ مستقل ملازمین کی طرح فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن انہیں نہ تو سروس اسٹرکچر دیا جا رہا ہے اور نہ ہی بنیادی ملازمت کا تحفظ۔

یہ کیس NCCIA کی قانونی، انتظامی اور انسانی وسائل سے متعلق صلاحیتوں پر سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے، اور اب عدالت کی جانب سے دی گئی حتمی ڈیڈ لائن اس معاملے کے فوری حل کی جانب ایک اہم قدم تصور کی جا رہی ہے۔


نتیجہ: ہائی کورٹ کی سختی، حکومت کے لیے چیلنج

اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح اور دوٹوک احکامات کے بعد وزارتِ داخلہ اور NCCIA انتظامیہ کو آئندہ سماعت سے پہلے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
عدالت نے نہ صرف ادارے کی کوتاہیوں کو نشاندہی کی ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ریاستی ادارے قواعد و ضوابط کے بغیر نہیں چل سکتے۔
یہ کیس دیگر حکومتی اداروں کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے، جو قواعد و ضوابط کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button