
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ:
سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں فتنہ الہندستان سے منسلک دہشتگردوں کے خلاف بڑی اور کامیاب کارروائی کرتے ہوئے بلوچستان کو ایک ممکنہ بڑی تباہی سے بچا لیا ہے۔ کارروائی کے دوران دو دہشتگرد ہلاک ہوئے، جب کہ ایک دہشتگرد، جس کی شناخت جہانزیب علی کے نام سے ہوئی ہے، نے سیکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ گرفتار دہشتگرد جہانزیب نے اپنے اعترافی بیان میں کئی ہوش رُبا اور چشم کشا انکشافات کیے ہیں جن سے نہ صرف دہشتگرد نیٹ ورکس کے طریقہ کار کا پتا چلتا ہے بلکہ نوجوانوں کو ورغلانے والے تنظیمی ڈھانچوں کا بھی پردہ چاک ہوتا ہے۔
کارروائی کی تفصیلات
ذرائع کے مطابق، سیکیورٹی فورسز کو خفیہ اطلاع ملی تھی کہ چاغی کے نواحی علاقے میں دہشتگرد تنظیم "فتنہ الہندستان” کے اہم کارندے بلوچستان کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ 23 اور 24 ستمبر کی درمیانی شب فورسز نے ایک منظم کارروائی کرتے ہوئے علاقے کا محاصرہ کیا اور دہشتگردوں کو ہتھیار ڈالنے کی تاکید کی۔
ذرائع کے مطابق، دہشتگردوں میں شامل نثار اور زبیر نے فورسز پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی کارروائی میں نثار مارا گیا، جب کہ زبیر نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی۔ کارروائی کے اختتام پر دہشتگرد جہانزیب نے ہتھیار ڈال دیے اور خود کو فورسز کے حوالے کر دیا۔
اعترافی بیان میں اہم انکشافات
سیکیورٹی حکام کے مطابق، گرفتار دہشتگرد جہانزیب نے تفتیش کے دوران نہایت اہم اور تشویش ناک انکشافات کیے ہیں۔ جہانزیب کا کہنا ہے کہ اُس کا اصل نام جہانزیب علی ہے جب کہ تنظیم میں اُسے علی جان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اُس نے مزید بتایا کہ وہ گزشتہ دو برسوں سے "فتنہ الہندستان” سے منسلک ہے اور اُس نے متعدد کارروائیوں میں دہشتگرد زبیر احمد کے ساتھ مل کر حصہ لیا۔
جہانزیب نے بتایا کہ تنظیم کا بنیادی مقصد بلوچستان کی اہم تنصیبات، بالخصوص توانائی و مواصلاتی مراکز، کو نقصان پہنچانا اور ملک میں افراتفری پھیلانا تھا۔ زبیر تخریبی منصوبہ بندی کا ماہر تھا، اور وہ اکثر نوجوانوں کو بھرتی کرنے، تربیت دینے اور انہیں ذہنی طور پر تیار کرنے میں پیش پیش رہتا تھا۔
نوجوانوں کو ورغلانے والے عناصر کا پردہ فاش
جہانزیب نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ دہشتگردی کی طرف اُس کا رجحان مخصوص طلباء تنظیموں اور سوشل میڈیا پراپیگنڈہ کی وجہ سے بڑھا۔ اُس نے بالخصوص بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان تنظیموں نے اُسے اور دیگر نوجوانوں کو گمراہ کیا۔
"یہ تنظیمیں ہمیں یہ باور کرواتی تھیں کہ تشدد ہی ہمارا واحد راستہ ہے،” جہانزیب کا کہنا تھا۔ "لیکن جب میرے ساتھی ایک ایک کر کے مارے گئے، تو مجھے احساس ہوا کہ ہم جس راہ پر چل پڑے ہیں، وہ تباہی کی طرف لے جانے والی ہے۔”
دفاعی ماہرین کی رائے
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ "فتنہ الہندستان” جیسی تنظیمیں بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے مخصوص نیٹ ورک کے تحت کام کر رہی ہیں، اور یہ بیرونی فنڈنگ سے چلنے والی تنظیمیں نوجوانوں کو ورغلا کر اُنہیں دہشتگردی کی راہ پر ڈالتی ہیں۔
ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار کے مطابق:
"بلوچستان میں جاری شورش کو ہوا دینے کے پیچھے صرف داخلی عناصر نہیں بلکہ غیر ملکی ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ طلباء تنظیموں کا غلط استعمال کر کے نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ایک منظم سازش کا حصہ ہے۔”
حکومتی مؤقف اور آئندہ اقدامات
بلوچستان حکومت کے ترجمان نے کارروائی کو سیکیورٹی فورسز کی بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی جاری رہے گی۔ اُن کے بقول:
"ہم اپنی سرزمین پر کسی قسم کی دہشتگردی یا علیحدگی پسندی کو پنپنے نہیں دیں گے۔ نوجوانوں کی صحیح سمت میں رہنمائی اور انتہاپسندی سے بچاؤ کیلئے ایک مربوط حکمتِ عملی ترتیب دی جا رہی ہے۔”
نتیجہ
چاغی میں ہونے والی یہ کارروائی سیکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ صلاحیت، مستعدی اور قربانی کی مثال ہے۔ جہانزیب جیسے دہشتگردوں کے اعترافات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے محض فوجی کارروائی نہیں بلکہ فکری و نظریاتی سطح پر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو ورغلانے والے عناصر کے خلاف ایک مؤثر بیانیہ، تعلیمی اصلاحات اور سوشل میڈیا پر کڑی نگرانی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔



