پاکستاناہم خبریں

کیا بیلاروس پاکستانیوں کے یورپ پہنچنے کا نیا راستہ بن رہا ہے؟

"ہم نے وزیراعظم پاکستان سے معاہدہ کیا ہے کہ مختلف شعبوں سے اسپیشلسٹس جلد بھیجے جائیں گے۔ ہم اپنی ضرورت کے مطابق افراد کا انتخاب کریں گے، اور پاکستانی حکام اس میں ہماری مدد کریں گے،" — صدر لوکاشینکو

مخدوم حسین-پاکستان, وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

مشرقی یورپ کا ایک چھوٹا اور نسبتاً غریب ملک — اچانک پاکستانیوں کے خوابوں میں داخل ہو چکا ہے۔ جہاں پہلے خلیجی ممالک، ترکی یا ملائیشیا روزگار کے مواقع کے لیے پسندیدہ تھے، وہیں اب ایک نیا نام ابھر رہا ہے: بیلاروس۔

پاکستان میں بے روزگاری، مہنگائی، اور معاشی غیریقینی صورتحال کے پیشِ نظر بڑی تعداد میں نوجوان بیرونِ ملک کام کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں بیلاروس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے، جس کے تحت ہزاروں پاکستانی "اسپیشلسٹس” کو روزگار کے لیے بیلاروس بھیجا جائے گا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر یہ معاہدہ خوش آئند محسوس ہوتا ہے، لیکن اس کے کئی پہلو ایسے بھی ہیں جن پر سوالات اُٹھ رہے ہیں۔


حکومتوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ

اپریل 2025 میں وزیراعظم شہباز شریف نے بیلاروس کے دارالحکومت منسک کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان سے کم از کم ایک لاکھ ہنرمند افراد کو بیلاروس لانے کے خواہاں ہیں۔

"ہم نے وزیراعظم پاکستان سے معاہدہ کیا ہے کہ مختلف شعبوں سے اسپیشلسٹس جلد بھیجے جائیں گے۔ ہم اپنی ضرورت کے مطابق افراد کا انتخاب کریں گے، اور پاکستانی حکام اس میں ہماری مدد کریں گے،” — صدر لوکاشینکو

اس اعلان کے کچھ ماہ بعد، پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں بیلاروسی ہم منصب سے ملاقات کی اور اس منصوبے کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔


کیوں بیلاروس؟

بیلاروس کو یورپ کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہاں کی اوسط ماہانہ تنخواہ 800 امریکی ڈالر ہے، جو کہ پاکستان کی اوسط تنخواہ سے کہیں زیادہ ہے، جہاں اکثر افراد 300 ڈالر سے بھی کم ماہانہ پر کام کرتے ہیں۔

بیلاروس کی آبادی 90 لاکھ سے بھی کم ہے اور یہ تیزی سے سکڑ رہی ہے۔ 2020 میں ہونے والے سیاسی مظاہروں، آزادیِ اظہار پر پابندیوں، اور روس کی جنگِ یوکرین میں شمولیت کے بعد لاکھوں افراد بیلاروس چھوڑ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کی حکومت کو مینوفیکچرنگ، تعمیرات، زراعت اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں افرادی قوت کی اشد ضرورت ہے۔


پاکستانیوں کے لیے خواب، یا جال؟

اسلام آباد کے یومیہ مزدور شان سہیل اُن ہزاروں پاکستانیوں میں شامل ہیں جو بہتر مستقبل کی تلاش میں بیلاروس جانے کے خواہاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

"میں بہتر آمدنی اور بہتر زندگی کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتا ہوں۔ جب پتا چلا کہ بیلاروس میں موقع ہے تو کئی ایجنٹس سے رابطہ کیا، مگر اب تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ کہاں درخواست دینی ہے یا آغاز کیسے ہو۔”

یہی وہ ابہام ہے جو اس منصوبے کو خطرناک بھی بنا رہا ہے۔


اقربا پروری اور کرپشن کا خدشہ

امیگریشن ماہرین اور لیگل ایکسپرٹس خبردار کرتے ہیں کہ ماضی میں اکثر ایسے پروگرام "بیچنے” کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ لائسنس یافتہ لیبر ایجنٹس اکثر کنٹریکٹس خرید کر اُن افراد کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں جو کسی بھی قیمت پر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔

"اس عمل سے کئی بار ناقص یا غیر موزوں افراد بیرون ملک پہنچتے ہیں جو مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اُترتے،” — امیگریشن ماہر، عدنان ملک

ملک کا کہنا ہے کہ بیلاروس بھیجنے سے قبل تمام منتخب افراد کی تربیت، تعلیمی اسناد کی جانچ، اور سکریونٹی لازمی ہونی چاہیے تاکہ ملک کی بدنامی نہ ہو اور لیبر مارکیٹ میں پاکستانیوں کا مقام برقرار رہے۔


یورپ کی "سیڑھی” یا قانونی بحران؟

بیلاروس یورپی یونین کا رکن ملک نہیں ہے، مگر اس کی جغرافیائی پوزیشن اسے یورپ میں داخل ہونے کے خواہشمندوں کے لیے ایک "گیٹ وے” بنا سکتی ہے۔ یہ پہلو زیادہ تر پاکستانی نوجوانوں کی دلچسپی کی اصل وجہ ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد کہتے ہیں:

"بہت سے افراد بیلاروس میں کام کو محض عارضی قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اصل ہدف مغربی یورپ میں داخلہ حاصل کرنا ہے۔”

ایسا رجحان یورپی یونین کو تشویش میں مبتلا کر سکتا ہے، خاص طور پر جب پولینڈ اور دیگر ممالک پہلے ہی بیلاروس پر یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر پناہ گزینوں کو سرحد پار دھکیلتا ہے تاکہ یورپ کو دباؤ میں لایا جا سکے — جسے مغربی دنیا "ہائبرڈ وار فیئر” کہتی ہے۔


ایف آئی اے اور انسانی حقوق کے اداروں کی تشویش

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (FIA) نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ غیر قانونی ہجرت کی ایک نئی لہر کو جنم دے سکتا ہے۔ ایک سینئر اہلکار کے مطابق:

"ہمیں اس ممکنہ بحران کے لیے تیار رہنا چاہیے جو بیلاروس کی جانب بڑے پیمانے پر انخلا کے نتیجے میں پیدا ہو سکتا ہے۔”

انسانی حقوق کے کارکنان بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بیلاروس میں سیاسی بحران، پابندیاں اور مزدوروں کے استحصال کا خطرہ موجود ہے۔ وہاں جانے والے پاکستانی کارکن انسانی اسمگلنگ یا جبری مشقت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں اگر حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے۔


حکومت کے لیے آزمائش

یہ اسکیم پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار بن سکتی ہے۔ ایک طرف، یہ بیروزگاری کم کرنے اور ترسیلات زر بڑھانے کا ذریعہ ہے؛ دوسری طرف، اگر ناقص منصوبہ بندی ہوئی تو یہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

کیا کیا جانا چاہیے؟

  1. شفاف طریقہ کار متعارف کرایا جائے

  2. ایجنٹس کی سخت نگرانی کی جائے

  3. اسناد اور مہارت کی تصدیق لازمی قرار دی جائے

  4. بیلاروس میں قانونی تحفظ کو یقینی بنایا جائے

  5. تربیتی پروگرام پہلے پاکستان میں مکمل کرائے جائیں


نتیجہ: خواب یا فریب؟

بیلاروس میں ملازمت کا موقع ان ہزاروں پاکستانیوں کے لیے ایک نئی امید ہو سکتا ہے جو اپنے ملک میں مناسب روزگار سے محروم ہیں۔ لیکن اگر یہ منصوبہ شفافیت، احتساب، اور انصاف پر مبنی نہ ہوا تو یہ ایک اور امیگریشن بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

پاکستان اور بیلاروس دونوں کے حکام کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ صرف اعلانات سے آگے بڑھ کر زمینی اقدامات کریں۔ تبھی جا کر بیلاروس پاکستانیوں کے لیے یورپ کی سیڑھی نہیں، بلکہ ایک قانونی، محفوظ، اور باعزت روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button