
جنیوا / نیویارک: اقوامِ متحدہ نے ایک بار پھر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سرگرم بین الاقوامی کمپنیوں کی تازہ فہرست جاری کر دی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کی طرف سے جاری کردہ اس تازہ رپورٹ میں 11 ممالک کی 158 کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے جو اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی غیرقانونی بستیوں میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر سرگرم ہیں۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ کمپنیاں بھی شامل
فہرست میں کئی بڑی اور عالمی شہرت یافتہ کمپنیاں بدستور شامل ہیں، جن میں:
ایئر بی این بی (Airbnb)
بکنگ ڈاٹ کام (Booking.com)
موٹورولا سلوشنز (Motorola Solutions)
ٹرپ ایڈوائزر (TripAdvisor)
یہ کمپنیاں سیاحت، ٹیکنالوجی اور مواصلاتی خدمات سمیت مختلف شعبوں میں سرگرم ہیں اور ان پر الزام ہے کہ ان کی خدمات اور مصنوعات اسرائیلی بستیوں کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔
کچھ کمپنیوں کو فہرست سے خارج کر دیا گیا
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کچھ کمپنیوں نے اپنی سرگرمیوں پر نظرثانی کی ہے یا انہیں ختم کر دیا ہے، جس کے باعث انہیں فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ ان میں فرانس کی السٹوم (Alstom) اور آن لائن ٹریول کمپنی اوپوڈو (Opodo) شامل ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ نے اس حوالے سے کوئی واضح تفصیل جاری نہیں کی کہ کن بنیادوں پر ان کمپنیوں کو فہرست سے ہٹایا گیا۔
کمپنیاں کن ممالک میں قائم ہیں؟
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں اسرائیل میں رجسٹرڈ ہیں، لیکن دیگر ممالک میں قائم کمپنیوں کی شراکت داری بھی نمایاں ہے۔ جن ممالک کی کمپنیاں اس فہرست میں شامل ہیں، ان میں شامل ہیں:
امریکہ
برطانیہ
کینیڈا
چین
فرانس
جرمنی
نیدرلینڈز
لکسمبرگ
پرتگال
اسپین
یہ کمپنیاں تعمیراتی، سیاحتی، تکنیکی، مالیاتی اور سیکیورٹی خدمات جیسے مختلف شعبوں میں کام کر رہی ہیں، اور ان کی سرگرمیوں سے مقبوضہ علاقوں میں غیرقانونی بستیوں کا انفراسٹرکچر مضبوط ہو رہا ہے۔
"بستیوں کی تعمیر ایک جنگی جرم ہے” — فولکر ترک
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، فولکر تُرک نے اس رپورٹ کے اجرا کے موقع پر ایک سخت بیان جاری کیا۔ انہوں نے کہا:
"اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر اور توسیع کی پالیسی بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے اور جنگی جرم کے مترادف ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ:
"یہ رپورٹ ان تمام کمپنیوں کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کا از سرِ نو جائزہ لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ انسانی حقوق کی کسی قسم کی خلاف ورزی میں شریک نہ ہوں۔”
فہرست کی تاریخ اور عالمی ردعمل
یہ فہرست اقوامِ متحدہ نے پہلی بار فروری 2020 میں جاری کی تھی۔ اس وقت بھی اس اقدام پر شدید بین الاقوامی ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی مذمت کرتے ہوئے اس فہرست کو "سیاسی حربہ” اور "معاشی بلیک میلنگ” قرار دیا تھا۔
اسرائیل کا موقف ہے کہ یہ فہرست "متعصبانہ” ہے اور اس کا مقصد اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کرنا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوامِ متحدہ کے اس اقدام کو سراہا اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا۔
اقوامِ متحدہ کا مقصد اور پیغام
اقوامِ متحدہ کے مطابق اس فہرست کا مقصد کسی کمپنی پر پابندی عائد کرنا نہیں بلکہ انہیں شفافیت اور اخلاقی ذمہ داری کی جانب راغب کرنا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ کمپنیاں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لا کر اس فہرست سے نکل سکتی ہیں، جیسا کہ کچھ کمپنیوں نے حالیہ رپورٹ میں کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے دنیا بھر کے سرمایہ کاروں، صارفین، حکومتوں اور اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ ان کمپنیوں کے ساتھ لین دین کرتے وقت ان کی سرگرمیوں پر غور کریں اور انسانی حقوق کے اصولوں کو ترجیح دیں۔
نتیجہ
اقوامِ متحدہ کی اس تازہ رپورٹ سے ایک بار پھر واضح ہوا ہے کہ عالمی ادارے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بستیوں کے قیام کو نہ صرف غیرقانونی بلکہ اخلاقی طور پر بھی قابلِ مذمت سمجھتے ہیں۔ یہ رپورٹ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر تجارتی شعبے کو یہ پیغام دیتی ہے کہ منافع کے پیچھے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔