پاکستاناہم خبریں

وزیراعظم شہباز شریف کی ٹرمپ امن منصوبے کی حمایت: غزہ میں جنگ ختم کرنے کی امید اور تنازعات

ان کا یہ موقف ایک ایسے عالمی تنازع کی روشنی میں سامنے آیا ہے جو نہ صرف مشرقِ وسطٰی بلکہ عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔

اسلام آباد / واشنگٹن (نمائندہ خصوصی + ادارتی حصہ) — وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جانب سے پیش کیے گئے 20 نکاتی امن منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن نہ صرف خطے میں سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہے بلکہ معاشی ترقی کا بھی زینہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ان کا یہ موقف ایک ایسے عالمی تنازع کی روشنی میں سامنے آیا ہے جو نہ صرف مشرقِ وسطٰی بلکہ عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے۔


وزیراعظم کا بیان اور کلیدی نکات

وزیراعظم نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ X (سابق ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں کہا:

  • وہ صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

  • ان کا مؤقف ہے کہ پائیدار امن خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے لازمی ہے۔

  • وہ دو ریاستی حل (Israel–Palestine) کے نفاذ پر زور دیتے ہیں، جو امن کا قابل قبول راستہ ہے۔

  • انہوں نے صدر ٹرمپ کی قیادت اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے کردار کی تعریف کی۔

  • ان کا کہنا ہے کہ امن منصوبے کو حقیقت بنانے کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی کردار ادا کرنے کے لیے مکمل آمادگی ضروری ہے۔


امن منصوبے کی شرائط: کیا کچھ تجویز کیا گیا ہے؟

بین الاقوامی ذرائع اور لیک شدہ کاپیاں بتاتی ہیں کہ منصوبے میں متعدد اہم شقیں شامل ہیں:

  1. مذاکرات کے 48 گھنٹوں میں یرغمالیوں کی رہائی

  2. اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کی رہائی، جن میں ایسے فلسطینی شامل ہوں گے جو اسرائیلی جیلوں میں مختلف جرائم کی سزا کاٹ رہے ہیں

  3. وہ حماس کے ارکان جو امن کا راستہ اپنانے پر آمادہ ہوں، انہیں عام معافی اور محفوظ راستے کی پیش کش

  4. حماس کے عسکری ڈھانچے کا مکمل خاتمہ

  5. آہستہ آہستہ غزہ سے اسرائیلی انخلا

  6. غزہ کی عبوری حکومت کا قیام

  7. فلسطینی اتھارٹی کو مستقبل میں علاقے میں کردار دینے کی گنجائش، بشرطیکہ وہ اصلاحات کرے

یہ منصوبہ امریکی مؤقف کا ایک اہم موڑ سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ پچھلے بیانیے میں غزہ کی آباد کاری اور مکمل امریکی کنٹرول کے نظریات زیرِ غور تھے۔


عالمی اور علاقائی ردعمل: چیلنجز اور مخالفت

  • بنیامین نیتن یاہو نے اس منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا، اور کہا کہ یہ اسرائیل کی جنگی حکمتِ عملی کے مطابق ہے۔ تاہم، حماس نے ابھی تک باقاعدہ مؤقف نہیں اپنایا، اور شکوک و شبہات موجود ہیں کہ وہ اس منصوبے کو قبول کرے گی یا نہیں۔

  • اس منصوبے پر کئی حوالوں سے قانونی، اخلاقی اور سیاسی سوالات اٹھائے گئے ہیں، خاص طور پر فلسطینی زمینی حُقوق، ریاستی خودمختاری, اور انخلا کی شقیں۔


پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ماضی کے مؤقف کا پس منظر

وزیراعظم شہباز شریف کے مؤقف کے باوجود، پاکستان نے ماضی میں ٹرمپ کی بعض تجاویز کو سختی سے رد کیا ہے:

  • پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس بات کی تردید کی کہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنا یا غزہ کو امریکی کنٹرول میں لانا جائز ہے۔

  • انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی پالیسی دو ریاستی حل پر مبنی ہے اور وہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے موقف کا پابند ہے۔ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے کی سخت تنقید اس وقت ہوئی تھی جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ غزہ کی آبادی کو منتقل کیا جائے اور غزہ کو "ریویرا” بنایا جائے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک نے اسے ناانصافی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

یہ ماضی کا پس منظر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وزیراعظم کا حالیہ مؤقف ایک نیا توازن تلاش کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے، جہاں کشیدگی کے باوجود پاکستان امریکہ اور مسلم دنیا دونوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھے۔


توقعات، خدشات اور آگے کا راستہ

  • اگر اسرائيل اور حماس اس منصوبے پر اتفاق کر لیں، تو قریب مدت میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور جزوی انخلا کی توقع ممکن ہے۔

  • مگر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ حماس کیسے ردعمل دے گی؟ کیا وہ اپنے سیاسی اور عسکری حصے کو ترک کرے گی یا جدوجہد کا راستہ اختیار کرے گی؟

  • اس کے علاوہ، منصوبے کی شقیں جیسے عبوری حکومت، اصلاحات، اور فلسطینی اتھارٹی کا دوبارہ کردار سب نازک اور پیچیدہ ہیں۔

  • علاقائی ممالک، عرب لیگ اور اسلامک ممالک کی رائے اور شمولیت اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کا اہم فیصلہ کریں گی۔

  • پاکستان کی پوزیشن کو اب ایک بار پھر دیکھنا ہوگا کہ آیا وہ ماضی کی اصولی پالیسی کو برقرار رکھے گا یا نئے عالمی بندوبست کے تناظر میں رد و بدل کرے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button