پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں میو ہسپتال سے اغوا ہونے والی نومولود بچی بازیاب، اغواکار خاتون گرفتار —ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران کی بروقت کارروائی

پولیس کی فوری اور مؤثر کارروائی سے نہ صرف بچی بحفاظت والدین کے حوالے کی گئی بلکہ اغوا کار خاتون کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

لاہور پولیس نے ایک اہم پیش رفت کرتے ہوئے میو ہسپتال کی ایمرجنسی سے اغوا کی جانے والی نومولود بچی کو کامیاب کارروائی کے بعد بازیاب کروا لیا ہے۔ پولیس کے مطابق، یہ کارروائی جدید ٹیکنالوجی، سیف سٹی کیمروں اور انسانی انٹیلیجنس کی مدد سے ممکن ہو سکی۔ واقعے پر شہر بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی، تاہم پولیس کی فوری اور مؤثر کارروائی سے نہ صرف بچی بحفاظت والدین کے حوالے کی گئی بلکہ اغوا کار خاتون کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔

واقعے کی تفصیلات

پولیس حکام کے مطابق، نومولود بچی 23 ستمبر کو لاہور کے لیڈی ایچیسن ہسپتال میں پیدا ہوئی تھی۔ بچی کے والدین نے 25 ستمبر کو اُسے کچھ ضروری ٹیسٹ کروانے کے لیے میو ہسپتال کی ایمرجنسی میں لایا، جہاں دورانِ انتظار ایک نامعلوم خاتون نے بچی کو اغوا کر لیا اور موقع سے فرار ہو گئی۔

بچی کی گمشدگی کی اطلاع پر فوری ایکشن لیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے واقعے کا نوٹس لیا اور ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی، جس کی سربراہی ایس پی سٹی نے کی۔ ٹیم نے سیف سٹی کیمروں کی مدد سے 510 مختلف سی سی ٹی وی فوٹیجز کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ بیک ٹریکنگ کرتے ہوئے پولیس ٹیم نے 35 کلومیٹر تک اغوا کار کے راستے کا پتہ لگایا اور بالآخر بچی کو لاہور کے علاقے بھما جھگیاں، شاد باغ سے بازیاب کروا لیا۔

اغوا کار خاتون کون ہے؟

ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ اغوا کی ذمہ دار خاتون کی شناخت رابعہ کے نام سے ہوئی ہے، جو مبینہ طور پر اپنی شادی بچانے کے لیے یہ قدم اٹھا بیٹھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ رابعہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ بچی اس کی اپنی اولاد ہے۔ تاہم، تحقیقات جاری ہیں اور پولیس کی جانب سے مزید انکشافات متوقع ہیں۔

ڈی آئی جی آپریشنز کا بیان

ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:

"لاہور پولیس نے انتہائی سنجیدگی اور حساسیت کے ساتھ اس کیس کو ہینڈل کیا۔ ہم نے تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بچی کو بحفاظت والدین تک پہنچایا۔ یہ پولیس ٹیم کی پیشہ ورانہ مہارت اور جدید ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس ایسے تمام کیسز میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔

حالیہ اغوا کیسز اور پولیس کی کارکردگی

پولیس حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے سے کچھ روز قبل جنرل ہسپتال لاہور سے بھی ایک نومولود کو اغوا کیا گیا تھا، جسے پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے بازیاب کروا لیا تھا۔ ان مسلسل واقعات کے باوجود پولیس کی مستعدی اور جدید نظام کے استعمال سے مجرموں کی فوری گرفتاری ممکن ہو سکی ہے۔

عوامی ردعمل

واقعے کے بعد عوامی حلقوں میں پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر شہریوں نے بچی کی بحفاظت بازیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ہسپتالوں میں سیکیورٹی کو مزید مؤثر بنایا جائے تاکہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔

حکومت سے مطالبات

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ہسپتالوں میں بایومیٹرک سسٹم، الیکٹرانک انٹری اور خصوصی سیکیورٹی اسٹاف کا ہونا ضروری ہے۔ عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ والدین اور تیماردار ہوشیاری کا مظاہرہ کریں۔


نتیجہ:
لاہور پولیس کی اس کامیاب کارروائی نے ایک خاندان کو زندگی کا سب سے بڑا سکون لوٹا دیا ہے۔ نومولود بچی کی بحفاظت واپسی نہ صرف پولیس کے لیے ایک اعزاز ہے بلکہ شہریوں کے لیے بھی ایک تسلی بخش خبر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک اور فعال ہیں۔ تاہم، اس واقعے نے ہسپتالوں میں حفاظتی اقدامات پر کئی سوالات بھی اٹھا دیے ہیں جن کا جواب دینا حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button