مشرق وسطیٰ

الخلیل: اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائی، دو فلسطینی بچے "جاسوسی” کے الزام میں گرفتار

اسرائیلی فوج نے الخلیل کے قدیم علاقے میں اچانک چھاپہ مار کارروائی کی اور معمول کے مطابق اسکول جانے والے بچوں کو روکا

الخلیل / مقبوضہ مغربی کنارہ: مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل (Hebron) میں اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے آج ایک اور ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے دو معصوم فلسطینی بچوں کو مبینہ طور پر "جاسوسی” کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتار کیے گئے بچوں کی عمریں 12 اور 13 سال بتائی جا رہی ہیں، جنہیں اسکول جاتے ہوئے فوجیوں نے حراست میں لیا۔

عینی شاہدین اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی فوج نے الخلیل کے قدیم علاقے میں اچانک چھاپہ مار کارروائی کی اور معمول کے مطابق اسکول جانے والے بچوں کو روکا، ان کی تلاشی لی اور بعدازاں بغیر کسی وارنٹ یا قانونی جواز کے انہیں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔


بچوں پر جاسوسی کا مضحکہ خیز الزام

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ مختصر بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مذکورہ بچوں پر "فوجی تنصیبات کی نگرانی” اور "تحریک مزاحمت کے لیے معلومات اکٹھی کرنے” کا الزام ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی ثبوت یا واضح شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

مقامی فلسطینی تنظیموں نے ان الزامات کو بے بنیاد اور شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی صرف بچوں کو ڈرانے، فلسطینی معاشرے میں خوف پیدا کرنے اور والدین پر ذہنی دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔


خاندان کا ردعمل: ہمارے بچوں کو سکول سے اٹھایا گیا

گرفتار کیے گئے بچوں میں سے ایک کے والد نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
"میرا بیٹا روزانہ کی طرح اپنے دوست کے ساتھ اسکول جا رہا تھا، نہ ان کے پاس کچھ تھا، نہ کوئی مشکوک حرکت کی۔ فوجیوں نے انہیں روکا، گھنٹوں تفتیش کی، اور پھر زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ ہمیں اب تک نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں۔ کیا صرف فلسطینی ہونا ہی ان کا جرم ہے؟”


عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی شدید مذمت

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی فوج کی اس کارروائی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ امور کے ڈائریکٹر نے ایک بیان میں کہا:
"کم عمر بچوں کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کرنا بین الاقوامی قوانین اور بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل بچوں کو سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔”

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسف) نے بھی اس کارروائی پر فوری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان بچوں کو فوری طور پر رہا کریں اور آئندہ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔


اعداد و شمار: فلسطینی بچوں کی گرفتاری ایک مستقل المیہ

فلسطینی اسیران کے حقوق کی تنظیم ‘اَدّمیر’ کے مطابق، صرف 2025 کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران 680 سے زائد فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فورسز نے حراست میں لیا ہے، جن میں سے اکثریت کو بغیر کسی فردِ جرم کے ہفتوں یا مہینوں تک نظر بند رکھا گیا۔

زیادہ تر گرفتاریاں رات کے وقت گھروں پر چھاپے مار کر کی جاتی ہیں، اور دورانِ حراست بچوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد کی رپورٹس بھی سامنے آتی رہی ہیں۔


بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے؟

بین الاقوامی انسانی قوانین، خاص طور پر اقوام متحدہ کا کنونشن برائے حقوقِ طفل (UNCRC)، جس پر اسرائیل بھی دستخط کنندہ ہے، واضح طور پر بچوں کی گرفتاری اور نظربندی کو آخری اور مختصر المدت راستہ قرار دیتا ہے۔ بچوں کو بغیر قانونی معاونت یا والدین کی موجودگی کے حراست میں رکھنا عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔


نتیجہ: معصوم بچپن، فوجی ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا

الخلیل میں دو معصوم بچوں کی گرفتاری نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ فلسطین میں بچپن کب آزاد ہو گا؟ اسرائیلی مظالم کب رکیں گے؟ اور عالمی ضمیر کب بیدار ہو گا؟

جب معصوم ہاتھ کتابوں کے بجائے ہتھکڑیوں میں جکڑے جائیں، جب اسکول کا راستہ جیل کی کوٹھڑی میں جا کر ختم ہو، تو یہ کسی ایک قوم کا نہیں، پوری انسانیت کا المیہ بن جاتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button