بین الاقوامیتازہ ترین

مقبوضہ مغربی کنارہ: دو ریاستی حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یا مرکزی ستون؟

1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد پہلی عرب-اسرائیلی جنگ چھڑ گئی، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا جبکہ مغربی کنارہ اردن کے زیرِ انتظام آ گیا۔

رام اللہ / یروشلم / نیویارک (خصوصی تجزیاتی رپورٹ) – دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع فلسطینی علاقہ — جسے دنیا مغربی کنارہ (West Bank) کے نام سے جانتی ہے — اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری تنازعے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ ایک ایسا پیچیدہ اور حساس موضوع بن چکا ہے جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی امن کے لیے ایک مسلسل چیلنج کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

مغربی کنارہ کا مستقبل دو ریاستی حل کے تصور سے جڑا ہوا ہے، لیکن اسرائیلی بستیوں کی مسلسل توسیع، فلسطینی اتھارٹی کی کمزور گرفت، اور اسرائیلی فوج کی کارروائیوں نے اس خواب کو دھندلا کر دیا ہے۔


تاریخی پس منظر: تقسیم، جنگ اور قبضہ

مغربی کنارہ کی کہانی اقوام متحدہ کے 1947 کے تقسیم منصوبے سے شروع ہوتی ہے، جس میں فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ تاہم 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد پہلی عرب-اسرائیلی جنگ چھڑ گئی، جس کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطین کے بڑے حصے پر قبضہ جما لیا جبکہ مغربی کنارہ اردن کے زیرِ انتظام آ گیا۔

1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا، جو آج تک جاری ہے۔ بین الاقوامی برادری، بشمول اقوام متحدہ، اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔ امریکہ کے سوا زیادہ تر ممالک مغربی کنارے کو "مقبوضہ علاقہ” مانتے ہیں۔


آبادی اور بستیوں کا مسئلہ: فلسطینی ریاست کا خواب دھندلا رہا ہے

2023 کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی کنارے میں تقریباً 3.2 ملین فلسطینی جبکہ 500,000 سے 800,000 کے درمیان یہودی آبادکار رہائش پذیر ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ بستیوں میں رہتے ہیں جو عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہیں۔

پہلی اسرائیلی بستی 1960 کی دہائی میں قائم ہوئی، لیکن 1980 کے بعد یہ سلسلہ تیز ہوا، اور حالیہ برسوں میں یہ ایک ریاستی پالیسی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیلی حکومتوں نے درجنوں غیرقانونی بستیوں کو قانونی حیثیت دے دی ہے، جسے عالمی برادری مسترد کرتی ہے۔

بستیاں فلسطینیوں کی زمین، پانی کے ذرائع، اور نقل و حرکت پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ناقدین کے مطابق یہ بستیاں ایک متصل فلسطینی ریاست کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا چکی ہیں۔


سیاسی تقسیم: فلسطینی اتھارٹی بمقابلہ حماس

مغربی کنارے میں حکومت کا نظام فلسطینی اتھارٹی (PA) کے تحت چلتا ہے، جو فتح پارٹی کے تحت صدر محمود عباس کی قیادت میں کام کر رہی ہے۔ تاہم، غزہ پٹی پر حماس کی حکومت ہونے کی وجہ سے فلسطینی سیاسی صفوں میں واضح تقسیم موجود ہے۔ اس تقسیم نے نہ صرف فلسطینیوں کی سفارتی طاقت کو کمزور کیا ہے بلکہ داخلی طور پر بھی بے یقینی پیدا کی ہے۔

حال ہی میں فلسطینی عوام کی بڑی تعداد نے فلسطینی اتھارٹی پر بدعنوانی، کمزوری اور اسرائیل سے غیر ضروری نرمی کا الزام عائد کیا ہے۔


میدانِ جنگ بن چکا مغربی کنارہ

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد، اسرائیلی افواج نے مغربی کنارے میں جنین، طولکرم اور نور شمس جیسے علاقوں میں کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اسرائیل ان کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے، لیکن ان چھاپوں میں عام فلسطینی شہریوں کی ہلاکتیں، گھروں کی تباہی، اور بے دخلی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

دو سال کے دوران تقریباً 1,000 فلسطینی اسرائیلی فوج یا آباد کاروں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے۔


علاقائی تقسیم: اوسلو معاہدہ اور زمینی حقیقت

1995 کے اوسلو II معاہدے کے تحت مغربی کنارے کو تین علاقوں میں تقسیم کیا گیا:

  • علاقہ A (18%): مکمل فلسطینی کنٹرول، بڑے شہر جیسے رام اللہ اور نابلس شامل ہیں۔

  • علاقہ B (22%): سول انتظام فلسطینی، لیکن سیکیورٹی کنٹرول اسرائیلی فوج کے پاس۔

  • علاقہ C (60%): مکمل اسرائیلی کنٹرول، جہاں بستیوں کی اکثریت واقع ہے۔

علاقہ C میں فلسطینیوں کو مکانات بنانے یا زمین خریدنے کی اجازت نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ یہودی بستیوں کو مکمل ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔


معاشی و سماجی پہلو: مشکلات کے باوجود ترقی کی کوششیں

مغربی کنارے کے فلسطینیوں میں خواندگی کی شرح عرب دنیا میں بلند ترین ہے، اور یہاں ایک ابھرتا ہوا ٹیکنالوجی سیکٹر بھی وجود میں آ رہا ہے۔ زیتون کی کاشت یہاں کی معیشت کا بنیادی ستون ہے، مگر بار بار کی جھڑپوں، بندشوں اور چیک پوائنٹس نے روزگار اور تجارت کے مواقع کو بری طرح متاثر کیا ہے۔


علاقہ C کو ضم کرنے کا خدشہ: فلسطینیوں کی آخری امید خطرے میں

کچھ اسرائیلی سیاست دان علاقہ C کو اسرائیل میں ضم کرنے کے حق میں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مغربی کنارہ کے فلسطینی علاقے A اور B چھوٹے چھوٹے غیر متصل "انکلیوز” بن جائیں گے، جو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے۔


بین الاقوامی مؤقف اور مستقبل کی راہ

اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عرب لیگ تاحال دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا شروع کیا ہے، جس میں ناروے، اسپین، آئرلینڈ جیسے یورپی ممالک بھی شامل ہو چکے ہیں۔

تاہم، زمینی حقائق، اسرائیلی پالیسیوں، اور فلسطینی سیاسی انتشار کو دیکھتے ہوئے دو ریاستی حل کا تصور غیر یقینی ہوتا جا رہا ہے۔


نتیجہ: مغربی کنارہ — ایک ریاستی مستقبل کی امید یا دفن شدہ خواب؟

مغربی کنارہ آج ایک ایسے چوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے آگے کا ہر راستہ چیلنجز، تضادات اور کشمکش سے بھرپور ہے۔ بستیوں کی توسیع، سیکیورٹی کارروائیاں، سیاسی انتشار اور بین الاقوامی خاموشی نے اس علاقے کو نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے تقسیم کیا ہے بلکہ فلسطینیوں کی اجتماعی نفسیات کو بھی مجروح کر دیا ہے۔

تاہم، فلسطینی عوام آج بھی اپنے حق خودارادیت، آزادی، اور ایک آزاد ریاست کے قیام کی امید رکھتے ہیں۔ مغربی کنارے کا مستقبل صرف فلسطینیوں یا اسرائیلیوں کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ یہ عالمی ضمیر، سفارتی فیصلوں، اور علاقائی سیاست کے تانے بانے سے جڑا ہوا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button