
پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا زاہد الراشدی کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ و فلسطین امن منصوبے پر سخت ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے بارے میں پیش کیا گیا نیا منصوبہ، جو عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے، درحقیقت پوری صورت حال کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) – پاکستان شریعت کونسل کے امیر اور معروف اسلامی اسکالر مولانا زاہد الراشدی نے غزہ اور فلسطین میں قیام امن کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے نئے منصوبے کو امت مسلمہ کے لیے ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینی مسئلے کی موجودہ صورت حال کو ایک نئے اور خطرناک رخ پر لے جانے کا باعث بن سکتا ہے، جس کے بارے میں مسلم حکمرانوں اور دانشوروں کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا۔
فلسطین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ اور اس کے ممکنہ نتائج
مولانا زاہد الراشدی نے بیان میں کہا کہ:
"امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطین کے بارے میں پیش کیا گیا نیا منصوبہ، جو عالمی سطح پر زیرِ بحث ہے، درحقیقت پوری صورت حال کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ یہ منصوبہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان قدیم تنازعے کو ایک نئے زاویے سے پیش کرتا ہے جس میں ایک نیا سیاسی اور مذہبی ڈھانچہ تشکیل دیا جا رہا ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ بیت المقدس کے حوالے سے یہود و نصاریٰ کی قدیمی کشمکش نے اب ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے، جہاں مسیحی فریق جو ماضی میں زیادہ تر پس منظر میں رہا، اب کھل کر سامنے آ رہا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر جیسے عالمی رہنما اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔
مسلمانوں کی جگہ مسیحیوں کی بالادستی کی کوششیں
مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ:
"مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان بیت المقدس کی لڑائی اب ایک مختلف انداز اختیار کر چکی ہے اور اس نئے منصوبے کے تحت مسیحیوں کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو مسلم دنیا کے مفادات کے خلاف ہے اور امت مسلمہ کو اس سے خبردار رہنا ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس سازش کے پیچھے کئی مسلم حکمران بھی موجود ہیں جو اپنے مفادات کی خاطر اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں، جس سے یہ منصوبہ اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔
مسلم حکمرانوں اور دانشوروں کے لیے سنجیدہ پیغام
پاکستان شریعت کونسل کے امیر نے کہا:
"ہمیں اب اس مسئلے کو محض روایتی انداز میں نہیں بلکہ موجودہ عالمی اور مذہبی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم حکمرانوں کی موجودہ قیادت سے امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس بحران کا کوئی واضح اور موثر حل پیش کریں گے، لہٰذا دانشوروں، علمی و دینی اداروں اور ماہرین کو چاہیے کہ وہ گزشتہ دو ہزار پانچ سو سال کی تاریخ کا گہرائی سے جائزہ لے کر نئے حالات کے مطابق اپنا موقف طے کریں۔”
امت مسلمہ کو اتحاد اور بیداری کی ضرورت
مولانا زاہد الراشدی نے امت مسلمہ پر زور دیا کہ وہ آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ طور پر اس مسئلے کا مقابلہ کرے اور عالمی طاقتوں کے سازشی منصوبوں کو ناکام بنائے۔ انہوں نے کہا کہ:
"ہم سب کو مل کر فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کرنی ہوگی اور اس خطے میں قیام امن کے لیے حقیقی اور منصفانہ حل تلاش کرنا ہوگا، جو نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کرے بلکہ پورے خطے میں استحکام اور امن کا باعث بنے۔”
عالمی برادری کی ذمہ داری
انہوں نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے اور موجودہ سازشی منصوبوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالے تاکہ حقیقی قیام امن ممکن ہو سکے۔
نتیجہ:
مولانا زاہد الراشدی کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا امن منصوبہ امت مسلمہ کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہے جس کے متعلق مسلمان حکمرانوں، دانشوروں اور عالمی برادری کو فوری اور متحد ہو کر فیصلہ کن موقف اپنانا ہوگا تاکہ فلسطین اور پورے خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔



