
’’کچھ بھی باقی نہیں رہا، ہم ختم ہو گئے ہیں‘‘سید عاطف ندیم (اداریہ)
اگر منصوبہ شفاف طریقے سے نافذ ہو، معاہدے میں انسانی نمائندہ تنظیمیں اور مقامی کمیونٹیز شامل ہوں، تو کچھ فوری کم از کم ریلیف ممکن ہو سکتا ہے۔بین الاقوامی دباو اگر موثر ہو، تو بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔
اس جنگ زدہ پٹی کے لوگ اب اپنے گھروں، اپنے عزیزوں اور امیدوں کے ملبے تلے دبیے ہوئے ہیں۔ جنگ کی تباہ کاری نے نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو مٹا دیا ہے بلکہ انسانی روح کو بھی ایک ایسی حالت میں پہنچا دیا ہے جہاں مستقبل کے تحفظ کی توقع بہت کم ہوتی ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے پیش کیا گیا امن منصوبہ جن دنوں بات بن رہا ہے، اس وقت غزہ کے باشندے کہتے ہیں کہ انہیں ایک طرح سے “بے یار و مددگار” چھوڑ دیا گیا ہے۔
زندگی کے ملبے تلے امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں.غزہ کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، ملبے سے بھرے گلی کوچوں، اور انہی ملبے میں پھنسے ہوئے گھرانوں نے جنگ کی شدت کا حرف بحرف بیان ہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ:’’ہم ختم ہو گئے ہیں‘‘ – یہ جملہ نہ صرف ماضی کی قسمت کا غم ہے بلکہ حال کی صبحوں کی تلخی کا آئینہ بھی۔
وہ اب یہ نہیں پوچھ رہے کہ امن کب آئے گا، بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ کل تک زندہ رہ سکیں گے؟
خوراک، پانی، طبی سہولیات تقریباً ختم ہوگئی ہیں، امداد پہنچنے کا راستہ اکثر بند یا شدید خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے پیش کیے جانے والے امن منصوبے نے عالمی سطح پر خبروں کی زینت بنے رکھا ہے، مگر غزہ کے باشندے ان کو ٹھنڈے دل سے دیکھتے ہیں:اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ غیر حقیقی ہے، ایسی شرائط کے ساتھ جو فلسطینی گروپ خاص طور پر حماس قبول نہیں کر سکتے۔ ایک باوضوح ترجیح یہ ہے کہ امن ہو، چاہے وہ آہستہ آہستہ ہو، مگر وہ حالات جن میں انہیں چھوڑ دیا گیا ہو، ان کی بہتری ممکن نظر نہیں آتی۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ تو جیسے ایک سیاسی کھیل ہے، جس میں مؤخر الذکر مفاد اور اقتدار کے معاملات پہلے ہیں۔
غزہ کے باشندے اپنے تجربات بتاتے ہیں:امداد کی کمی: شاید کچھ بین الاقوامی ادارے امداد بھیج رہے ہیں، مگر ذرائع اور تقسیم میں تاخیر، راستوں کی ناکامی اور حملوں کی روک تھام نہ ہونا عوامی اذیت کو مزید بڑھاتا ہے۔ بہت سے گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، لوگ عارضی خیموں اور پناہ گاہوں میں رہتے ہیں، بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سب کچھ ہار چکے ہیں — بچے، گھریلو اثاثے، صحت، تعلیم، اور شاید مستقبل کی امید بھی۔
امن منصوبے پر بین الاقوامی ردعمل ملا جلا ہے:یورپی ممالک، بعض عرب ریاستیں، اور اقوام متحدہ کے نمائندے اس منصوبے کا خیرمقدم کر رہے ہیں، مگر وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ فلسطینی قیادات، خاص طور پر غزہ میں مقیم لوگ، منصوبے میں شامل بعض شرائط کو اپنی خودمختاری کے منافی سمجھتے ہیں۔ دھیرے دھیرے شعور پیدا ہو رہا ہے کہ امن صرف سیاسی ڈھیل نہیں، بلکہ عملی تبدیلی چاہیئے — لوٹ پھر آبادِ مکانات، روزگار، بنیادی حقوق کا حصول۔
غزہ کے لوگوں کی آواز — “ہم نجانے کب ممکِنِ مرمت کا منتظر ہیں”کچھ مقامی افراد نے یوں کہا:’’ہماری امیدیں ملبے کی طرح ہیں — ٹوٹے ہوئے اور ادھرے‘‘’’کچھ بھی باقی نہیں بچا، ہم خود ہی مرمت کا انتظار کرتے ہیں لیکن وقت ختم ہو رہا ہے‘‘’’امن کی باتیں دور کی کہانی ہیں اگر ہمارے بچے مر کر ہی نہیں جائیں اور کل کی صبح دیکھنے کی طاقت نہ ہو‘‘
اگر منصوبہ شفاف طریقے سے نافذ ہو، معاہدے میں انسانی نمائندہ تنظیمیں اور مقامی کمیونٹیز شامل ہوں، تو کچھ فوری کم از کم ریلیف ممکن ہو سکتا ہے۔بین الاقوامی دباو اگر موثر ہو، تو بین الاقوامی فورمز پر فلسطینی حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔
اگر امن منصوبے میں شرائط غیر منصفانہ ہوں تو وہ عوام کو مزید مایوس کریں گے۔اگر امداد، تعمیرِ نو اور بنیادی سہولیات کی بحالی نہ ہو، تو انسانی بحران گہرا جائے گا۔سلامتی کی صورتحال، حملے، داخلی نقل مکانی اور بیماریوں کا خطرہ، سب موجود ہیں۔
غزہ میں موجود فلسطینی عوام کہتے ہیں کہ انہیں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، ان کی آوازیں سنائی نہیں دیتی، ان کی تکالیف کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ مگر اسی میں ان کی عظمت ہے کہ وہ اپنی زمین پر قائم رہنے کا عزم رکھتے ہیں۔
امن منصوبے کی ہر نئی خبر ان کے لیے ایک موقع ہو سکتی ہے — اگر وہ وعدے پورے ہوں، اگر دنیا ان کو نظرانداز کرنا چھوڑے۔ مگر “ہم ختم ہو گئے ہیں” جیسا احساس ختم کرنے کے لیے، نہ صرف سیاسی مکالمہ بلکہ عملی اقدامات درکار ہیں۔