
ٹھل/کراچی (خصوصی رپورٹر): ٹھل کی رہائشی کم سن بچی کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لیے مقرر کردہ چھ رکنی میڈیکل انکوائری ٹیم نے اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بچی کی موت کا کوئی تعلق ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) ویکسین سے ثابت نہیں ہوا۔ اہل خانہ کی جانب سے ویکسین کو موت کا ممکنہ سبب قرار دینے کے دعوے کو رپورٹ میں مسترد کر دیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ای پی آئی (Expanded Programme on Immunization) سندھ کے سربراہ کو پیش کی گئی ہے، جس میں تفصیلات کے ساتھ بچی کی طبی تاریخ، علاج، اہل خانہ کے بیانات اور علاقے کی صورتحال کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اہم نکات:
بچی کی عمر 9 سال تھی، ابتدائی رپورٹس میں اسے غلطی سے نوعمر (ٹین ایجر) ظاہر کیا گیا۔
بچی کو 20 ستمبر کو ایچ پی وی ویکسین لگائی گئی تھی۔
ویکسینیشن کے بعد بچی کو مختلف اتائیوں سے علاج کرایا گیا اور پھر 28 ستمبر کو تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال ٹھل لایا گیا۔
بچی بخار میں مبتلا تھی اور کسی کو اپنے قریب آنے نہیں دے رہی تھی۔
بعد ازاں بچی کو سکھر انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ ریفر کیا گیا، جہاں ٹائیفائیڈ (اینٹیرک فیور) کی تشخیص ہوئی۔
علاج کے باوجود اگلے ہی دن بچی کا انتقال ہو گیا۔
پوسٹ مارٹم نہ ہونے پر تنازعہ
اہل خانہ کا مؤقف ہے کہ انہوں نے پوسٹ مارٹم کی درخواست دی تھی مگر اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اہل خانہ کو بتایا گیا تھا کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے رجوع کریں، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بچی کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے موت کی حتمی طبی وجہ کی تصدیق ممکن نہیں ہو سکی، تاہم وراثتی بیانات اور ’’وربل آٹوپسی‘‘ (زبانی پوسٹ مارٹم) کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ موت کا تعلق ویکسین سے نہیں تھا۔
دیگر بچیوں کی شکایات اور میڈیکل معائنہ
تحقیقات کے دوران علاقے کی چند اور بچیوں کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ انہیں ویکسین لگنے کے بعد بخار اور سانس کی تکلیف جیسے مسائل پیش آئے۔ ان بچیوں کو جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (جِمز) منتقل کیا گیا، جہاں معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے ان کی علامات کو بے چینی اور بھوک کی وجہ قرار دیا۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان بچیوں نے گزشتہ دو روز سے کچھ نہیں کھایا تھا، جس کے باعث وہ کمزوری اور گھبراہٹ کا شکار ہوئیں۔ علاج کے بعد انہیں صحت یاب قرار دے کر گھروں کو واپس بھیج دیا گیا۔
ویکسین کے معیار کا جائزہ
تحقیقات کرنے والی ٹیم نے ویکسین کے بیچ نمبر، ایکسپائری ڈیٹ اور کولڈ چین کے نظام کا بھی مکمل معائنہ کیا اور اسے درست، محفوظ اور تسلی بخش قرار دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں لگائی گئی ویکسینز کا معیار عالمی اصولوں کے مطابق تھا اور کسی قسم کی تکنیکی خرابی یا لاپرواہی نہیں پائی گئی۔
بچی کا نام اور شناخت میں الجھن
رپورٹ میں اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ بچی کے نام کے حوالے سے کنفیوژن پایا گیا۔ اہل خانہ کبھی اسے سمیرا اور کبھی سمعیہ کے نام سے پکار رہے تھے، جس کے باعث ابتدائی معلومات میں ابہام پیدا ہوا۔
نتیجہ اور سفارشات
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دستیاب شواہد، میڈیکل ریکارڈز، وربل آٹوپسی، اور دیگر بچیوں کے معائنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچی کی موت محض ایک اتفاقیہ واقعہ تھا اور ویکسین سے اس کا تعلق ثابت نہیں ہوا۔ مزید کہا گیا ہے کہ ویکسینیشن کے بعد کی بے چینی یا علامات کو خوف، بھوک، یا افواہوں کا نتیجہ سمجھا جائے۔
حکام کی اپیل
ای پی آئی حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور بچوں کو مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ویکسینیشن کے عمل پر اعتماد کریں۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ ویکسینیشن پروگرام کے تحت بچوں کو تمام حفاظتی ٹیکے بروقت لگوائیں تاکہ صحت مند مستقبل کی ضمانت دی جا سکے۔
اختتامی کلمات
یہ واقعہ جہاں ایک افسوسناک سانحہ ہے، وہیں اس نے ویکسینیشن کے حوالے سے معاشرتی شعور، طبی رہنمائی اور حکومتی حکمت عملی پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ میڈیکل انکوائری ٹیم کی شفاف اور مفصل رپورٹ نے اگرچہ اہل خانہ کے خدشات کو رد کیا ہے، تاہم اس واقعے نے ایک بار پھر عوامی صحت سے متعلق آگاہی، شفاف رابطہ کاری اور فوری طبی رسپانس کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔