
رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز پاکستان ڈیسک
اسلام آباد: حکومتِ پاکستان نے شہریوں، خاص طور پر نوجوان فری لانسرز کو متنبہ کیا ہے کہ بعض غیرملکی یا مشکوک آن لائن جاب آفرز کے ذریعے نوجوانوں کو ایسے کام کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے جن کے ذریعے قومی منصوبوں، حساس تنصیبات یا لوکیشن کے بارے میں تصویری اور جیوگرافک معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ معلومات بعد ازاں ان کمپنیوں یا ایجنسیوں کے ذریعے ملکی مفادات کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں۔
یہ انتباہ حکومت کی جانب سے موبائل فونز پر ایس ایم ایس کے ذریعے اور ڈائل ٹون پیغامات کے ذریعے بھی عام شہریوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ سرکاری پیغامات میں شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کسی نامعلوم یا مشتبہ تنظیم کے ساتھ کام کرنے سے پہلے مکمل جانچ کریں اور بلاشبہ کوئی حساس جگہ یا فوجی/اسٹراٹیجک تنصیب کی تصاویر، ویڈیوز یا لوکیشن فراہم نہ کریں۔
سرکاری الرٹ: کیا کہا گیا ہے؟
سرکاری انتباہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ:
بعض غیرملکی خفیہ ایجنسیاں آن لائن جاب آفرز کے ذریعے نوجوانوں کو سروے یا تحقیق کے نام پر مخصوص ہفتہ وار/روزانہ کے کام دیتی ہیں۔
ان کاموں کا اصل مقصد قومی منصوبوں، حساس تنصیبات، اور دیگر اہم مقامات کی تصاویر یا لوکیشن ڈیٹا حاصل کرنا ہوتا ہے۔
حاصل شدہ معلومات کو بعد ازاں متعلقہ کمپنی یا ادارے اپنے ملکی مفادات کے لیے یا پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
شہریوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ شناخت کی تصدیق کے بغیر کسی غیر معروف فرم کے ساتھ کام نہ کریں اور مشکوک آفرز کی اطلاع متعلقہ اداروں کو دیں۔
فری لانسرز ایسوسی ایشن کا ردِ عمل اور سفارشات
ذرائع کے مطابق درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں فری لانسرز کو دھوکے یا فریب سے استعمال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا:
"بعض صورتوں میں فری لانسرز سے ایسا کام کروایا گیا جس کے اصل مقاصد ان کے علم میں نہیں تھے۔”
ذرائع کے مطابق اگرچہ ان کے پاس بیرونی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود نہیں، تاہم وہ واضح کرتے ہیں کہ بہت سی جعلی یا مشکوک کمپنیاں آن لائن پلیٹ فارمز پر سرگرم ہیں۔ ان کی سفارشات میں شامل ہیں:
فری لانسرز کے لیے مقامی اور بین الاقوامی رجسٹرڈ پلیٹ فارمز کی فہرست مرتب کی جائے۔
حکومت فری لانس خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو رجسٹر کرے تاکہ شفافیت بڑھے اور فراڈ کے واقعات کم ہوں۔
متعلقہ وفاقی وزیر سے بات چیت کے بعد فری لانسرز کے تحفظ کے لیے باقاعدہ پالیسی سازی اور سہولتیں فراہم کی جائیں۔
ایف آئی اے اور ماہرین کا تجزیہ: سکیمرز کی حکمتِ عملیاں
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، سائبر ونگ، عمار جعفری نے اس رجحان کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فراڈ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں رونما ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا:
"سکیمرز سوشل انجینیئرنگ کے ذریعے پہلے نشانہ بننے والے ملک یا برادری کی ضروریات اور کمزوریوں کو جانچتے ہیں اور پھر اسی کے مطابق جعلی سکیم لانچ کرتے ہیں۔”
عمار جعفری نے اضافی خدشات بھی ظاہر کیے کہ:
یہ سکیمیں ضروری نہیں کہ بیرونِ ملک سے چلائی جائیں — پاکستان سے بیٹھ کر بھی کوئی فرد خود کو بیرونی کمپنی کا نمائندہ بنا سکتا ہے۔
سکیمرز عام طور پر ایسے لوگوں کو ہدف بناتے ہیں جن کے پاس حساس اداروں تک جزوی رسائی یا ان کے اردگرد آنے جانے کا موقع ہو۔
سائبر سکیورٹی ماہرین: ریاستی حمایت یافتہ یا خود ساختہ عناصر؟
ذرائع کے مطابق اس قسم کی مہمات بعض اوقات ریاستی حمایت یافتہ ایکٹرز بھی کر سکتے ہیں، اگرچہ ہر کیس میں ایسا ہونا ضروری نہیں۔ ان کا کہنا تھا:
"عموماً یہ عناصر سب سے پہلے ریاستی اداروں میں کام کرنے والے افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں؛ چونکہ تربیت یافتہ اہلکار ایسے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہتے ہیں، اس لیے یہ لوگ عام شہریوں یا فری لانسرز کو ہدف بناتے ہیں۔”
ذرائع کے مطابق جب کوئی گروہ یا کمپنی اس طرح کے کاموں میں ملوث ہوتا ہے تو وہ مخصوص علاقوں سے بڑے پیمانے پر افراد بھرتی کر لیتا ہے تاکہ اصل ملوث افراد یا نیٹ ورک پسِ پردہ رہ جائیں، اور برقرار رکھنے یا ٹریک کرنے میں دشواری پیش آئے۔
متاثرہ رپورٹس اور حقیقی کیسز — کتنی شواہد دستیاب ہیں؟
ابراہیم امین کے مطابق فری لانسر ایسوسی ایشن کے پاس کئی کیسیز کی رپورٹس ہیں جن میں فری لانسرز کو دھوکہ دے کر یا مشکوک دائرے میں شامل کر کے غیر مطلوبہ مواد یا معلومات اکٹھی کروائی گئی۔ تاہم، وہ اعتراف کرتے ہیں کہ بیرونی خفیہ ایجنسیوں کی براہِ راست ملوثیت کے واضح ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ:
بہت سے واقعات میں کوریج یا ثبوت مقامی سطح پر موجود ہوتے ہیں؛
شواہد کے فقدان یا ثبوتوں کی سیاسی/اسٹریٹیجک حساسیت کی بنا پر تحقیقات کو آگے بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے؛
متاثرین کی جانب سے رپورٹنگ کی کمی بھی ایسی تحقیقات کو متاثر کرتی ہے۔
نوجوان فری لانسرز کے لیے حفاظتی ہدایات (ماہرین کی تجویز کردہ)
ماہرینِ سکیورٹی اور فری لانسر ایسوسی ایشن کی مشترکہ تجاویز میں درج ذیل حفاظتی اقدامات شامل ہیں:
کسی بھی آن لائن جاب آفر یا کلائنٹ کی شناخت پوری طرح تصدیق کریں — ویب سائٹ، کمپنی کا رجسٹریشن نمبر، دفتر کا پتہ، اور سابقہ کلائنٹس کی آراء چیک کریں۔
حساس مقامات، فوجی تنصیبات، بندرجہ مقامات، یا قومی انفراسٹرکچر کی تصاویر یا لوکیشن جیسی معلومات کبھی فراہم نہ کریں۔
جب کام تصویری/ویڈیو مواد کا ہو تو کلائنٹ کو واضح طور پر بتائیں کہ آپ کن علاقے یا زاویوں سے مواد لیں گے؛ مشکوک ہدایات جیسے کہ "نزدیک سے عکس لیں” یا "بغیر اجازت کے اندرونی مناظر لیں” کو رد کریں۔
کام کے معاوضے اور کنٹریکٹس تحریری شکل میں لیں؛ ادائیگی کے ذرائع اور معاہدے کی شرائط کو محفوظ رکھیں۔
مشکوک یا غیرمعروف آرڈرز کی اطلاع فوری طور پر فری لانسر پلیٹ فارم، پولیس یا ایف آئی اے سائبر ونگ کو دیں۔
لوکل اور بین الاقوامی تسلیم شدہ فری لانس پلیٹ فارمز استعمال کریں اور کمپنیوں کی ریفرنس چیک کریں۔
موبائل میں مقام شیئرنگ یا لائیو لوکیشن کو ہمیشہ احتیاط سے استعمال کریں؛ ضرورت نہ ہونے پر بند رکھیں۔
اگر کسی سٹیج پر محسوس ہو کہ کلائنٹ آپ سے کچھ غیر قانونی یا مشکوک کروا رہا ہے تو فوری طور پر کام روک دیں اور ثبوت محفوظ کریں۔
حکومتی اقدامات اور آئندہ کا لائحہ عمل
اب تک سرکاری سطح پر موصولہ اطلاعات کے مطابق:
موبائل ایس ایم ایس اور ڈائل ٹون کے ذریعے عوامی آگاہی مہم چلائی گئی ہے۔
متعلقہ محکمے، بشمول وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایف آئی اے (سائبر ونگ) اور وزارتِ محنت کو ممکنہ حفاظتی اقدامات پر غور کے لیے کہا گیا ہے۔
فری لانسرز کے تحفظ کے لیے پلیٹ فارمز کی درجہ بندی، رجسٹریشن اور سرٹیفیکیشن کے ابتدائی اقدامات پر بھی بات ہو چکی ہے — البتہ حتمی پالیسی یا قانون سازی تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی۔
فری لانسر ایسوسی ایشن نے وفاقی وزیر سے ملاقات کر کے محفوظ ماحول اور سرکاری حمایت کی درخواست کی ہے۔
ماحصل: خطرات، موقع اور ذمہ داریاں
پاکستان میں فری لانسنگ روزگار کے نئے مواقع فراہم کر رہی ہے اور ہزاروں نوجوان اس شعبے سے زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ تاہم بڑھتے ہوئے آن لائن فراڈ اور ممکنہ جاسوسانہ سرگرمیوں نے ایک واضح پیغام دیا ہے: آن لائن کام کے دوران شفافیت، احتیاط اور حکومتی و ادارہ جاتی راہنمائی ناگزیر ہے۔
نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بڑھتی سرگرمی نے مواقع کے ساتھ خطرات بھی پیدا کیے ہیں۔
حکومتی آگاہی مہمیں ضروری ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ پالیسی فریم ورک، قانونی تحفظ اور فری لانسرز کی رجسٹریشن/سرٹیفیکیشن بھی اہم اقدامات ہیں۔
فری لانسرز، پلیٹ فارمز اور حکومتی اداروں کے درمیان مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے تاکہ نہ صرف معاشی مواقع محفوظ بنیں بلکہ قومی سلامتی کے تقاضے بھی پورے ہوں۔



