کالمزناصف اعوان

آگے بڑھنے کے لئے تندرست ہونا ضروری ہے !……ناصف اعوان

بیماریاں کیوں نہ پیچھا کریں یوں ہماری قومی صحت برباد ہو رہی ہے ظاہر ہے جسمانی طور سے کوئی بیمار قوم کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے صحت مند ہونا ضروری ہوتا ہے تب ہی کارکردگی بہتر سے بہترین ہوتی ہے

اب تو سیاست پر لکھنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ وہ سیاست نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی کہ وہ اندرون خانہ جیسی بھی ہوتی باہر اس کا تاثر اتنا خراب نہیں ہوتا جتنا آج ہے ۔ اب تو پگڑیاں اچھالنا معمولی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی خرید و فروخت ممنوع نہیں رہی ۔ سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف گھٹیا ترین ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں ۔ عزت و تکریم کا بالکل پاس نہیں رہا پھر سیاست میں مافیاز بہت در آئے ہیں جو عوام کو اہمیت نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے جو ہو رہے ہیں وہ آٹے میں نمک برابر۔ نتیجتاً عوام میں غم وغصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور وہ مایوس ہوتے جا رہے ہیں مگر اس کی پروا کسی کو نہیں لہذا ہم نے سوچا ہے کیوں نہ عوامی و سماجی مسائل پر لکھا جائے !
قارئین کرام ! جوں جوں آبادی بڑھ رہی ہے نئے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں اور جو پہلے سے موجود ہیں وہ گمبھیر ہوتے جارہے ہیں ۔ خوراک کی کمی سے لے کر اس میں ملاوٹ تک نے پورے معاشرتی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ بالخصوص ملاوٹ نے جو ہر کھانے پینے کی چیز میں کی جا رہی ہے۔ جس سے انسانی صحت پر خوفناک حد تک منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ آپ دودھ کو لے لیں جس کا اصلی دستیاب ہونا انتہائی مشکل ہے اس قدر اس میں ملاوٹ کی جاتی ہے کہ وہ زہر کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور زہر زندگی کا دشمن ہوتا ہے ۔ اس دودھ میں ایک خطرناک سفید پاؤڈر کے علاوہ چائنا کا کیمیکل‘ کھاد‘ سرف اور کوئی ہلکی ترین کوالٹی کا آئل ملا کر عوام کی خدمت میں پیش کر لیا جا رہا ہے ۔ پھلوں اور سبزیوں پر مضر صحت سپرے کیا جاتا ہے مرچ مصالحے جعلی تیار کیے جانے لگے ہیں۔ ہلدی میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہے ۔بازاری آٹا جس میں غذائیت نہیں ہوتی ۔ بیسن ہو یا شکر گڑ ‘ ان میں کچھ نہ کچھ ضرور شامل کر دیا جاتا ہے ۔ اندازہ کریں صحت کیسے بہتر ہو سکتی ہے ۔ بیماریاں کیوں نہ پیچھا کریں یوں ہماری قومی صحت برباد ہو رہی ہے ظاہر ہے جسمانی طور سے کوئی بیمار قوم کیسے آگے بڑھ سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے صحت مند ہونا ضروری ہوتا ہے تب ہی کارکردگی بہتر سے بہترین ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں اس پہلو کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی لہذا سر عام ناقص غیر معیاری اور ملاوٹ شدہ اشیائے خوردو نوش فروخت ہوتی ہیں مگر پنجاب حکومت نے روائتی محکموں کے اوپر اور محکمے لا بٹھائے ہیں جن کی کارکردگی قدرے اطمینان بخش ہے ۔مثال کے طور سے پیرا ہے جو ناجائز تجاوزات سے لے کر قبضہ گیروں کی بھی خبر لے رہی ہے اس طرح سی سی ڈی ہے وہ بھی اپنا کام کر رہی ہے مگر اس سے بعض لوگوں کو تحفظات بھی ہیں ۔ ماحولیات کے حوالے سے بھی ایک محکمہ تخلیق کیا ہے جس نے فضائی آلودگی پھیلانے والے کارخانوں ملوں فیکٹریوں اور بھٹوں کو اپنے ریڈار پر رکھ لیا ہے جس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں کہ قانون پر عمل نہ کرنے والی ملوں اور بھٹوں کو بند کیا جارہا ہے ۔ متوقع سموگ کی روک تھام کے لئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ اس کے باوجود خرابیاں موجود ہیں ملاوٹ مہنگائی اور لا قانونیت دیکھنے کو مل رہے ہیں مگر کہتے ہیں دہائیوں کے بگاڑوں کو پلک جھپکتے میں ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہوتا لہذا اب جب درستی کا آغاز ہوا ہے تو نتیجہ بھی مثبت ملے گا ۔ ”ہمارے دوست جاوید خیالوی کے مطابق نصف صدی سے زائد کے بگاڑ کا حل یہ بھی ہے کہ سزائیں سخت اور فوری دی جائیں کیونکہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے رہنے سے بگڑے ہوئے لوگ کبھی نہیں سُدھریں گے۔ آپ چین شمالی کوریا اور روس ا ور یورپین ملکوں کو دیکھ لیں وہاں کھانے پینے کی چیزوں میں کسی ملاوٹ کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غربت بھی ہو تو کسی کی صحت خراب ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا لوگ اپنا سفر حیات جاری رکھتے ہیں “
یہاں تو صورت حال مختلف ہے متعلقہ ادارے اکثر کارروائیاں ہھی ڈالتے ہیں چھوٹے موٹے جرمانے بھی کرتے ہیں مگر پھر وہی اندھیری رات ۔ ہم کسی روز دیکھتے ہیں کہ محکمہ فوڈ نے دودھ لانے والے ٹینکروں کو گھیر رکھا ہے ان کا دودھ بھی کسی نالی کھال یا نہر میں بہایا جا رہا ہے مگر اگلے ہی دن وہی ٹینکرز دھڑلے سے شہر کی جانب رواں ہیں اور عوام کی رگوں میں سفید زہر بھر رہے ہیں مگر یہ صورت حال باقی نہیں رہے گی کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تھوڑا بہت سیکھ لیا ہے کہ اب عوام کو لولی پاپ دے کر راضی کرنے کا دور بیت گیا یعنی وہ وقت گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ حد ہو گئی حد کہ یہاں جان بچانے والی ادویات میں بھی خالص پن نہیں رہا عام کی تو بات ہی نہیں ۔ چھوٹے چھوٹے میڈیکل اسٹوروں پر دو نمبر دوائیں بکتی ہیں اور غذاؤں کی کمیابی کا شکار غریب عوام انہیں خریدنے پر مجبور ہیں وہ تو ان عطائیوں سے بھی اپنا علاج کروانے پر مجبور ہیں جن کو دو وقت کی روٹی بمشکل میسر آ تی ہے ۔یہ عطائی ہر گاؤں ہر غریب بستیوں میں موجود ہوتے ہیں جو ڈرگ انسپکٹر سے مل کر سستی و فوری آرام دینے والی ادویات سے مریضوں کو ”طبی سہولتیں “ فراہم کر رہے ہیں کوئی مریض پیچیدگیوں میں مبتلا ہو رہا ہے یا نہیں اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی انہوں نے اپنی جیبیں بھرنا ہوتی ہیں اور بس!
عوام کو بھی اب سوچنا چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں اور متعلقہ حکام کو بتائیں وہ کیوں ان سے اپنا علاج کرواتے ہیں بلکہ اس علاقہ میں جب کوئی مستند ڈاکٹر ہوتا ہے تو وہ بھی شکایت کر سکتا ہے تاکہ عوام کی صحت کا مسلہ پیدا نہ ہو !
بہرحال وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ جو ایسے سماج میں رہ رہے ہیں جہاں ہوا غذا اور پانی خالصتاً دستیاب ہیں ان میں ہیرا پھیری کا نام و نشان تک نہیں وہ ریڑھی کے آگے کے حصے میں محض گاہک کو دکھانے کی غرض سے کوئی پھل نہیں سجاتے اور اس کے پیچھے والے حصے میں خراب مال رکھ کر دھوکا دہی کے مرتکب نہیں ہوتے ۔وہ کسی کی دل آزاری بھی نہیں کرتے اور انسانیت کو ترجیح دیتے ہیں مگر افسوس کہ انسانی حقوق ہوں یا انسانی صحت ہم کسی کا خیال رکھنا لازمی نہیں سمجھتے یہی وجہ ہے کہ ہماری قومی شناخت بھی نہیں ابھر سکی ۔ہمیں ترقی کے میدان میں بھی کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکیں ۔اٹھہتر برس کے بعد بھی ہم قرضے لے کر اپنی معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کے کوشش کر رہے ہیں جو بار بار رک جاتا ہے مگر ہمیں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ رات کتنی ہی کیوں نہ کالی ہو اس میں سے اجالا نمو دار ہو کر ہی رہتا ہے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button