
بلوچستان میں اغوا کی وارداتوں میں تشویشناک اضافہ: قلات میں تعمیراتی کمپنی کے 4 مزدور اغوا، 48 گھنٹوں میں دوسرا واقعہ وائس
قلات میں تعمیراتی کمپنیوں پر حملے اور مزدوروں کے اغوا کی یہ پہلی واردات نہیں۔ اکتوبر 2024 میں قلات کے علاقے منگچر سے بھی متعدد مزدوروں کو اغوا کیا گیا تھا،
قلات / کوئٹہ,رپورٹ آف جرمنی اردو نیوز پاکستان ڈیسک:
بلوچستان کے شورش زدہ ضلع قلات میں ایک مرتبہ پھر عدم تحفظ کی فضا گہری ہو گئی ہے، جب نامعلوم مسلح افراد نے کوئٹہ-کراچی شاہراہ پر کام کرنے والی تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر حملہ کر کے 4 مزدوروں کو اغوا کر لیا۔ یہ واقعہ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اغوا کی دوسری بڑی واردات ہے، جس نے صوبے میں جاری بدامنی اور مزدوروں کی غیرمحفوظ صورتحال پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
واقعہ کی تفصیلات
لیویز کنٹرول قلات کے مطابق، جمعرات کی صبح قلات شہر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع علاقے بینچہ پنگو میں مسلح افراد نے اچانک کارروائی کی۔ عینی شاہدین اور حکام کے مطابق، 10 سے زائد موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے کوئٹہ-کراچی قومی شاہراہ پر ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ اسی دوران، مسلح گروہ کے ایک اور دستے نے کچھ فاصلے پر قائم تعمیراتی کمپنی کے رہائشی کیمپ پر دھاوا بولا۔
کیمپ پر حملے کے دوران چار مزدوروں کو اغوا کیا گیا۔ لیویز حکام کے مطابق، اغوا کیے گئے مزدوروں کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے ہے۔ یہ مزدور کوئٹہ-کراچی شاہراہ کی توسیعی منصوبے پر کام کر رہے تھے۔
ماضی کی یاد تازہ: یہ پہلا واقعہ نہیں
قلات میں تعمیراتی کمپنیوں پر حملے اور مزدوروں کے اغوا کی یہ پہلی واردات نہیں۔ اکتوبر 2024 میں قلات کے علاقے منگچر سے بھی متعدد مزدوروں کو اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کو قتل کر دیا گیا جبکہ باقی مغویوں کو بعد ازاں رہا کیا گیا۔
48 گھنٹوں میں دوسرا اغوا: مچھ میں کوئلہ مزدور نشانہ بنے
قلات میں مزدوروں کے اغوا سے صرف ایک دن قبل، ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں بھی ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب نامعلوم مسلح افراد نے ایک کوئلہ ڈپو پر کام کرنے والے تین مقامی مزدوروں کو اغوا کر لیا۔
مچھ پولیس کے مطابق، اغوا کاروں نے جائے وقوعہ پر ایک پرچی چھوڑ دی تھی، جس میں ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے دو کوئلہ کمپنیوں کو کام بند کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ دھمکی میں واضح کیا گیا تھا کہ کام جاری رکھنے کی صورت میں "سنگین نتائج” بھگتنے ہوں گے۔
بھتہ یا عسکری ہدف؟ سی ٹی ڈی نے تحقیقات کا آغاز کر دیا
پولیس نے اغوا کے واقعے کی تحقیقات محکمہ انسداد دہشت گردی (CTD) کے حوالے کر دی ہیں۔ سی ٹی ڈی کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق:
"اس طرز کی اغوا کی وارداتیں عمومی طور پر بھتے اور تاوان کی وصولی کے لیے کی جاتی ہیں، لیکن بعض کیسز میں تنظیمی مقاصد اور بغاوت کو ہوا دینا بھی محرک ہو سکتا ہے۔”
سی ٹی ڈی نے مزدوروں کے اغوا کے دونوں واقعات — قلات اور مچھ — کو آپس میں منسلک قرار دینے کا امکان ظاہر کیا ہے، اور اس حوالے سے علاقے میں سرگرم مسلح گروپوں کے نیٹ ورکس پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
مزدور طبقہ خطرے میں: عدم تحفظ بڑھتا جا رہا ہے
بلوچستان میں جاری شورش اور مسلح کارروائیوں کے درمیان محنت کش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ چاہے وہ کوئلہ کان کنی کا شعبہ ہو، تعمیرات کا کام ہو یا مواصلاتی منصوبے — اغوا، قتل، دھمکیاں اور تاوان کی وارداتیں عام ہوتی جا رہی ہیں۔
مزدوروں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ:
"ہم اپنے روزگار کے لیے سینکڑوں میل سفر کر کے آتے ہیں، مگر یہاں ہمیں تحفظ نہیں ملتا۔ حکومت صرف وعدے کرتی ہے، عمل نہیں۔”
حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے چیلنج
متعدد تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں اور مزدوروں پر حملے ریاستی اداروں کو کمزور دکھانے اور ترقیاتی عمل کو روکنے کی سازش ہیں۔ قلات اور مچھ کے واقعات ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ:
کیا سیکیورٹی ادارے ان علاقوں میں مؤثر حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں؟
مزدوروں کو کب تک بے یار و مددگار چھوڑا جائے گا؟
ترقیاتی منصوبے جاری رکھنا ممکن ہے یا مسلح گروہوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟
مطالبات اور آئندہ اقدامات
متاثرہ مزدوروں کے اہل خانہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مقامی رہنما حکومت سے فوری کارروائی، مغوی مزدوروں کی بازیابی، اور کیمپس کی مؤثر سیکیورٹی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیویز اور پولیس نے مشترکہ طور پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، تاہم تاحال کسی گرفتاری یا بازیابی کی اطلاع نہیں ملی۔