کالمزپیر مشتاق رضوی

کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ۔۔ لیکن سدباب کیسے ؟…….پیر مشتاق رضوی

کرپشن سے نہ صرف ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے بلکہ عوامی وسائل کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ جو حکومتی نا انصافی، بدانتظامی اور رشوت خور سیاست کی وجہ سے ہے۔

کرپشن تیسری دنیا کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ ترقی روک دیتی ہے، غریبی بڑھاتی ہے، اور عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ کرپشن کی وجہ سے تعلیم، صحت، اور سوشل سروسز کا معیار بہت گر جاتا ہے-غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے کیونکہ انویسٹرز بے ایمانی والے نظام میں اپنا پیسہ نہیں لگاتے یہ بد انتظامی اور معاشرتی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے جس سے ملک پیچھے رہ جاتے ہیں۔کرپشن ہر سال ترقی پذیر ملکوں کو 1.26 ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچاتی ہےدنیا میں 2024ء کے مطابق کرپشن رینکنگ کے مطابق سب سے زیادہ کرپٹ ممالک میں جنوبی سوڈان (سکور 8)، صومالیہ (9)، وینزویلا (10)، شام (12)، اور یمن (13) شامل ہیں-کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) کی عالمی فہرست کے مطابق پاکستان دنیا کا 46 واں کرپٹ ترین ملک بن گیا جب کہ گزشتہ برس 48 واں ملک تھا۔
کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں بھی پاکستان کا اسکور 100 میں سے 27 ہے جو کہ گزشتہ برس 25 تھا۔جبکہ تیسری دنیا کے کچھ ممالک بہت زیادہ کرپشن میں آتے ہیں جو ترقی میں رکاوٹ ہیں پاکستان میں کرپشن کا سالانہ نقصان تقریباً 8.5 سے 10 کھرب پاکستانی روپے (94 ارب امریکی ڈالر) کے لگ بھگ ہے۔ یہ روزانہ تقریباً اربوں روپے کے حساب سے ہوتا ہے، پاکستان کی قومی آمدنی کا تقریباً 10 فیصد حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، جو ملکی معیشت کو 94 ارب ڈالر سے زائد سالانہ نقصان پہنچاتا ہے۔
کرپشن سے نہ صرف ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے بلکہ عوامی وسائل کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ جو حکومتی نا انصافی، بدانتظامی اور رشوت خور سیاست کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کی کرپشن پرسپشن انڈیکس 2024ء میں 135 ویں نمبر پر ہے، جو بہت تشویشناک ہے۔ : نیب کے سابق چیئرمین ایڈمرل ر سید فصیح الرحمن کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً 100 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ پاکستان کے ترقیاتی فنڈز کا تقریباً 40 سے 60 فیصد حصہ کرپشن اور بدانتظامی کی نذر ہو جاتا ہے۔
خاص طور پر سندھ اور بلوچستان جیسے صوبوں میں کرپشن کی شرح 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے، جہاں بڑے ترقیاتی منصوبے "گھوسٹ پراجیکٹس” اور نجی مفادات میں ضائع ہوتے ہیں۔ :
پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن 2008ء سے 2013ء کے دوران پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ہوئی، جس میں تقریباً 8.5 کھرب روپے کا نقصان ہوا نواز شریف کے دور حکومت 2013ء-2017ء میں کرپشن کچھ کم ہوئی لیکن پھر بھی سنگین الزامات تھے۔ عمران خان کی حکومت پر بھی میگا کرپشن کے الزامات ہیں، اس دور میں کرپشن عروج پر رہی کے پے کے میں کرپشن کے ہوشربا کیسز سامنے آئے جبکہ عمران خان پر خاص طور پر فارن فنڈنگ ، توشہ خانہ اور دیگر سکینڈلز کے الزامات ہیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں پاکستان کا کرپشن اسکور عمران خان کے دور میں خراب ہوا اور 6 درجے نیچے گیا۔ عمران خان کا دعویٰ کرپشن ختم کرنے کا تھا، لیکن رپورٹس اور کیسز اس کے برعکس صورتحال تھی پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن کے شکار اداروں میں پولیس سب سے زیادہ بدعنوانی کا شکار، عام شہریوں کی شکایات بھی پولیس ہوتی ہیں۔ ٹینڈرنگ اور کنٹریکٹنگ کے ادارے ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانی عام ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں رشوت کے ریٹ کمیشن کی صورت میں 10 %سے لیکر 40% سے بھی زائد کی شکایات زدعام ہیں عدلیہ میں رشوت اور سیاسی مداخلت کے باعث کرپشن کی شرح بہت زیادہ ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے میں رشوت اور وسائل اور اختیارات کے غلط استعمال کے باعث متاثر ہوتے ہیں طاقتور افسر شاہی اور لوکل گورنمنٹ میں زمین کی انتظامیہ، کسٹمز، ریونیو اور ٹیکس کے ادارے بھی کرپشن میں شامل ہیں آجکل ریونیو ڈیپارٹمنٹ بھی کرپشن۔میں سر فہرست ہے
پاکستان میں کرپشن میں سیاسی، مذہبی، قانون دان طبقہ اور تاجر برادری سب ملوث ہیں سیاسی طبقہ_ اکثر قومی وسائل اور ترقیاتی فنڈز میں غیر قانونی فائدے لے کر سب سے زیادہ کرپشن میں ملوث ہوتا ہے۔ مذہبی طبقہ بھی اکثر معاملات میں مالی بدعنوانی اور وسائل کے غلط استعمال کے الزامات سے خالی نہیں ہے قانون دان طبقہ خاص طور پر عدلیہ اور وکلاء میں رشوت، سیاسی مداخلت، اور نا انصافی عام ہے، جس سے انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے۔تاجر برادری میں بھی ٹیکس چوری ، ناجائز منافع خوری ، ھنڈی کا کاروبار سمگلنگ اور پیداوار کی مصنوعی قلت پیدا کرکے دولت کمانے کے علاوہ حکومتی معاملات میں رشوت اور سہولت کاری عام ہے، خاص طور پر سرکاری لائسنسنگ اور کنٹریکٹ میں کرپشن کھلے عام جاری ہے ۔کھاد ،شوگر ،چینی اور آٹا مافیاز بہت طاقتور ہیں حکومتیں کرپٹ مافیاز کو نکیل ڈالنے میں مکمل طور ناکام ہیں کرپشن ملک کے ہر بڑے طبقے میں جڑ پکڑ چکی ہے اور یہ سب سے بڑا اجتماعی مسئلہ ہے۔
پاکستان میں کرپشن کی روک تھام اس لیے ناکام رہی ہے کیونکہ سیاسی مداخلت اور حکومتی اثرو رسوخ سے ادارے آزاد نہیں رہ پاتے۔ قانونی پیچیدگیاں اور کمزور قوانین مجرموں کو تحفظ دیتی ہیں۔ احتساب اداروں میں وسائل کی کمی، تربیت کا فقدان، اور ملازمین کی ملازمت کی غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے۔ طاقتور مافیاز کو بچانے کے لیے قوانین اور اصلاحات اکثر اپنی ذاتی مفادات کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ شفافیت کی کمی اور عدالتی مداخلت کی وجہ سے مقدمات کی پیروی ٹھپ رہ جاتی ہے۔جب اوپر سے سیاسی راہنمائی اور قوت ارادی کمزور ہو، تو نچلے سطح پر بھی کرپشن ختم نہیں ہو پاتی۔ پاکستان میں کرپشن روک تھام کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر یہ ادارے کام کر رہے ہیں نیشنل اکاونٹیبلیٹی بیورو (NAB) ملکی سطح پر کرپشن کی تحقیقات اور مقدمات درج کرتی ہے حکمرانوں نے اپنے مفادات کو تحفظ کے لئے آئین اور قانونء ترامیم سے نیب کو بظاہر غیر مؤثر کر دیا ہے وفاقی انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA)کرپشن اور دیگر مالی جرائم کی تحقیقات کرتی ہے۔ صوبائی اینٹی کرپشن کے ہر صوبے میں کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لیے مختلف ادارے موجود ہیں۔ وفاقی اور صوبائی محتسب کے دفاتر عوامی شکایات کی سنوائی اور کرپشن کے خلاف قانونی کاروائی کرتے ہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کے اکاؤنٹس کمیٹیوں کے علاوہ یہ ادارے مل کر کرپشن کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر سیاسی دباؤ اور وسائل کی کمی بڑی رکاوٹ ہے۔ پارلیمنٹ کرپشن روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے کیونکہ سیاسی مفادات کی وجہ سے قوانین پر عملدرآمد کمزور ہوتا ہے۔ ممبران پارلیمنٹ خود کرپشن یا کرپٹ لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔شفافیت اور احتساب کے نظام میں سیاسی دباؤ رہتا ہے پارلیمنٹ میں کرپشن کے خلاف مضبوط نگرانی کا فقدان ہے۔جب خود ہی کرپٹ ہوں، تو کرپشن کا خاتمہ مشکل ہو جاتا ہے۔نیب نے 2025ء کے پہلے چھ ماہ میں تقریباً 547 ارب روپے کی بدعنوانی کی رقم نکال کر واپس حکومت کو دی ہے، جس میں اپریل سے جون کے دوران 456 ارب روپے کی ریکوری ہوئی۔ نیب نے لاکھوں افراد کو فراڈ کی واپسی بھی کروائی اور غیر قانونی زمینیں بھی ضبط کی ہیں۔ نیب کی جدید اصلاحات سے کارکردگی کافی بہتر رہی ہے نیب نے کرپشن کے خلاف سخت کاروائی کی ہے، جس سے اربوں روپے کی غیر قانونی رقم برآمد ہوئی ہے لیکن کرپشن کا مکمل خاتمہ ابھی چیلنج ہے۔کرپشن پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کو یوں متاثر کرتی ہے منصوبے مہنگے ہوتے ہیں کیونکہ رشوت اور میگا سیکنڈلز کی وجہ سے غیر ضروری اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ معیار خراب ہو جاتا ہے، کیونکہ ٹھیکیدار کم معیار کا سامان اور کام کرتے ہیں تاکہ زیادہ منافع کما سکیں۔ منصوبے وقت پر مکمل نہیں ہوتے، تاخیر کی وجہ سے فوائد دیر سے ملتے ہیں اور اقتصادی نقصان ہوتا ہے۔کرپشن کی وجہ سے قومی مقاصد جیسے تعلیم، صحت، اور بنیادی سہولیات پر سرمایہ کم پڑتا ہے۔کرپشن ترقی کو روک دیتی ہے اور عوام کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ سیاسی مداخلت ہی ہے۔ سیاسی رہنما اپنے فائدے کے لیے اداروں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور احتساب کا عمل سیاسی گرفت میں آ جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ادارے آزاد اور منصفانہ کام نہیں کر پاتے، جس سے کرپشن بڑھتی ہے کرپشن سے غربت، جرائم کے علاوہ یہ سماجی برائیاں جنم لیتی ہیں:
تعلیم اور صحت کی ناقص سہولیات ، عدم مساوات اور معاشرتی فرق، بدعنوانی سے طاقتور طبقے کا غریبوں پر ظلم ،عوام میں بے اعتمادی اور ناانصافی، بدعنوانی سے ہی قانون کی حکمرانی متاثر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں جرائم، دہشت گردی اور سماجی انتشار بڑھ جاتا ہے بنیادی طور پر، کرپشن پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے اور ترقی کو روک دیتی ہے۔ کرپشن اور دہشت گردی کا گہرا تعلق ہے۔ کرپشن سے انصاف کا نظام کمزور ہوتا ہے، سیکیورٹی ادارے متاثر ہوتے ہیں، اور دہشت گردوں کو فنڈنگ یا سہولتیں ملتی ہیں۔ اس سے غریبی، ناانصافی، اور سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے جو دہشت گردی کو بڑھاوا دیتا ہےکرپشن پاکستان اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے پاکستان میں احتساب ممکن ہے،مگر اس کے لیے سیاسی ارادے، مضبوط ادارے، اور شفاف قوانین درکار ہیں احتساب صرف عدالتوں میں نہیں، بلکہ ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ شفافیت کو فروغ دے۔ پاکستان میں کرپشن کے سدباب کے لیے قانون سازی کافی ہے، مگر مسئلہ ان قوانین پرعملدرآمدکی ناقص صورتحال ااور اداروں میں سیاسی مداخلت ہے۔ دستور پاکستان میں بنائے گیےقوانین کرپشن کو جرم قرار دیتے ہیں اور سخت سزائیں دیتے ہیں- مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے وسائل کی کمی، سیاسی دباؤ، اور ناکافی خودمختاری کی وجہ سے مؤثر کارروائی نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر، NAB کو وسیع اختیارات حاصل ہیں مگر اس کی کارکردگی سیاسی اثرات سے متاثر رہتی ہے۔ پاکستان میں احتساب بہتر بنانے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں:احتساب اداروں کو مکمل سیاسی آزادی دینا چاہیے۔ شفاف قوانین بنائے جائیں اور بروقت نافذ کیے جائیں۔ احتساب کے عمل میں جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل نظام اپنانا چاہیے۔ عوامی شکایات کا موثر نظام قائم کیا جائے تاکہ رشوت اور ظلم کم ہو۔عدلیہ کو مکمل آزاد اور مضبوط بنایا جائے تاکہ انصاف جلدی اور بلا تاثر ملے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کرپشن کے خلاف بہت مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کرپشن کو بے نقاب کر کے عوام کوآگاہی دیتی ہیں سرکاری اور نجی اداروں پر شفافیت کا دباؤ بڑھاتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے احتساب کی مانگ کرتی ہیں۔ عوامی شعور بیدار کر کے کرپشن کے خلاف تحریک چلا سکتی ہیں۔ جب میڈیا آزاد اور غیر جانبدار ہو، تو کرپشن کا سدباب ممکن ہے۔ جب یہ سب ہوں تو احتساب کا عمل کامیاب ہو سکتا ہے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button