
(خصوصی رپورٹ)
پاکستان، ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ مہینوں میں بدلتی ہوئی سفارتی حرکیات نے خطے میں نئی جغرافیائی، توانائی اور سکیورٹی پالیسیوں کے امکانات کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں نئی گرمجوشی دیکھنے میں آ رہی ہے، تو دوسری جانب پاکستان اور ایران کے تاریخی و جغرافیائی تعلقات میں بھی ایک نیا سفارتی توازن پیدا ہو رہا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گہرائی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ امریکہ پاکستان کے تیل کے ذخائر کو ترقی دینے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ تعاون کرے گا، جس کا زیادہ تر فوکس بلوچستان کے وسائل پر ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ امریکہ کے خطے میں بڑھتے ہوئے مفادات کی نشاندہی کرتا ہے، خاص طور پر ایران کی سرحد کے قریب امریکی موجودگی بڑھانے کے تناظر میں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن، قدرتی وسائل، اور ایران و افغانستان سے قربت نے اسے امریکی پالیسی میں ایک اسٹریٹجک اتحادی بنا دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے سفارتی اور معاشی دباؤ بڑھا رہا ہے۔
ایران-پاکستان قربت: تعاون یا توازن؟
اس کے برعکس، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے حال ہی میں پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا، جہاں انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کر کے دوطرفہ تجارتی و سکیورٹی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے، مشترکہ سکیورٹی اقدامات، انٹیلیجنس شیئرنگ اور بارڈر پیٹرولنگ پر بھی بات چیت کی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران اس وقت محاذ آرائی کے بجائے سفارت کاری کے ذریعے خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی سینئر فیلو فاطمہ امان کے مطابق، تہران اسلام آباد کے ساتھ سکیورٹی اشتراک کے لیے زیادہ سرگرم ہے تاکہ سرحدی شدت پسندوں جیسے جیش العدل اور بی ایل اے کے خطرات سے نمٹا جا سکے۔
سہ طرفہ کشیدگی یا توازن؟
تاہم، امریکہ اور ایران کے تعلقات میں تاریخی کشیدگی کے پیش نظر، پاکستان کے لیے یہ سفارتی توازن برقرار رکھنا انتہائی نازک اور پیچیدہ چیلنج ہے۔ جہاں امریکہ پاکستان کو اسٹریٹجک انویسٹمنٹ اور توانائی کے میدان میں مواقع فراہم کر رہا ہے، وہیں ایران چاہتا ہے کہ پاکستان اسے امریکی دباؤ سے نجات دلانے میں کردار ادا کرے۔
ایران کی توقع ہے کہ پاکستان اس کے سول نیوکلیئر پروگرام کی حمایت جاری رکھے گا، جیسا کہ حالیہ اسرائیل-ایران کشیدگی میں پاکستان نے ایرانی موقف کی حمایت کی اور اسرائیل کے حملے کی مذمت کی۔ تاہم، پاکستان نے امریکی مفادات کے ساتھ بھی توازن برقرار رکھا، اور بھارت کے ساتھ کشیدگی میں صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔
امریکی مفادات: توانائی اور جغرافیائی رسائی
صدر ٹرمپ کی بلوچستان میں تیل کے ذخائر کو ترقی دینے کی پالیسی نہ صرف توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دے گی بلکہ ایران کے مشرقی سرحد پر امریکی اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کرے گی۔ اس خطے میں امریکی موجودگی تہران کے لیے ایک اسٹریٹیجک چیلنج بن سکتی ہے۔
قائداعظم یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد شعیب کے مطابق، پاکستان کو نہ صرف توانائی کے میدان میں فیصلے کرنے ہیں بلکہ جیو پولیٹیکل دباؤ کا بھی سامنا ہے۔ ان کے مطابق، "ایران کو واشنگٹن تک پہنچنے کے لیے ایک پل کی ضرورت ہے، اور پاکستان یہ کردار ادا کر سکتا ہے۔”
گیس پائپ لائن اور پابندیاں: بڑی رکاوٹیں
ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ، جو ایک وقت میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعاون کا مرکز سمجھا جاتا تھا، امریکی پابندیوں کی وجہ سے معطل ہو چکا ہے۔ فاطمہ امان کے مطابق، جب تک ایران پر امریکی پابندیاں موجود ہیں، اس جیسے بڑے توانائی منصوبے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
تجارتی ماہر اسامہ ملک نے بتایا کہ پاکستان غیر رسمی طور پر ایران سے تیل حاصل کر رہا ہے، اور اندازوں کے مطابق پاکستان کی 30 فیصد ایندھن کی ضروریات ایرانی اسمگل شدہ تیل سے پوری ہو رہی ہیں۔ تاہم، یہ غیر رسمی تجارت بھی مستقل حل نہیں ہے، اور امریکی پابندیوں کی نرمی ہی اس میں وسعت لا سکتی ہے۔
سفارتی راہ ہموار کرنے میں پاکستان کا کردار
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے حال ہی میں کہا کہ پاکستان ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ واشنگٹن میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کے کردار کو سراہا۔
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان مستقبل میں نہ صرف ایک توانائی پارٹنر کے طور پر بلکہ خطے میں ثالثی کے کردار میں بھی کلیدی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔
نتیجہ: دوستی، توازن یا کشمکش؟
پاکستان اس وقت ایک سفارتی چوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے امریکہ، ایران، اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مفادات اور سلامتی کے توازن کو نہایت ہوشیاری سے سنبھالنا ہوگا۔ امریکہ کے ساتھ گہرے اسٹریٹجک تعلقات اور ایران کے ساتھ ثقافتی، مذہبی اور جغرافیائی رشتے پاکستان کو ایک نازک توازن کی ضرورت کی طرف لے جا رہے ہیں۔
اگر اسلام آباد اس توازن کو برقرار رکھ سکا تو وہ نہ صرف توانائی اور تجارتی مواقع حاصل کر سکتا ہے بلکہ خطے میں امن اور سفارتی راہ ہموار کرنے والا مرکزی کھلاڑی بھی بن سکتا ہے۔



