پاکستاناہم خبریں

پاک-افغان سرحدی تنازعہ: افغان فورسز کی مبینہ بِلا اشتعال فائرنگ، پاک فوج کا بھرپور اور شدید جواب — کئی افغان پوسٹس تباہ، درجنوں ہلاک ہونے کے دعوے

ذرائع نے کہا کہ فائرنگ صرف پریشر یا گشت کی صورت میں نہیں تھی بلکہ اس کا ایک واضح مقصد خوارج قراردی گئی مسلح تنظیموں کو سرحد پار کروانے کی کوشش بھی تھا۔

رپورٹ وائس آف جرمنی-پاکستان نیوز ڈیسک

پاکستانی قبائلی سرحدی علاقے: 10 اکتوبر کی رات سے شروع ہونے والی سرحدی کشیدگی نے پاک افغان سرحد پر ایک بار پھر زبردست تشویش پیدا کر دی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع اور مقامی رہنماؤں کے دعوے کے مطابق، افغانستان کی جانب سے سرحدی حدود پر بِلا اشتعال فائرنگ کی گئی جس کا مقصد مبینہ طور پر خوارج جیسی دہشت گرد تشکیلوں کو پاکستانی حدود میں داخل کروا کر عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ اس فائرنگ کے جواب میں پاک فوج نے تیزی اور شدت کے ساتھ مؤثر جوابی کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں کئی افغان بارڈر پوسٹس تباہ اور درجنوں افغان اہلکار ہلاک ہونے کے الزامات سامنے آئے ہیں۔

فائرنگ کہاں کہاں ہوئی؟

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان فورسز نے سرحدی علاقے میں متعدد مقامات پر فائرنگ کی جن میں شامل ہیں:

  • انگور اڈا (خیبر پارا)

  • باجوڑ کے مختلف چیک پوسٹس

  • کرم ایجنسی کے سرحدی مقامات

  • دیر کے سرحدی علاقوں کے حصے

  • چترال کے کچھ سرحدی پوائنٹس

  • بلوچستان میں بارام چاہ

ذرائع نے کہا کہ فائرنگ صرف پریشر یا گشت کی صورت میں نہیں تھی بلکہ اس کا ایک واضح مقصد خوارج قراردی گئی مسلح تنظیموں کو سرحد پار کروانے کی کوشش بھی تھا۔

پاک فوج کا ردِ عمل: “بھرپور اور شدید” جواب

ذرائع نے بتایا کہ پاک فوج کی چوکس اور مستعد پوسٹوں نے فوری طور پر بھرپور دفاعی جواب دیا اور بعد ازاں سول اور عسکری حکام کے ساتھ ہم آہنگی میں کارروائیاں جاری رہیں۔ ایک اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاک فوج نے ان جوابی کارروائیوں میں متعدد افغانی پوسٹوں کو موثر انداز میں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چند پوسٹس مکمل طور پر تباہ ہو گئیں اور مبینہ طور پر درجنوں افغانی فوجی اور خارجی ہلاک ہوئے — تاہم یہ اعداد و شمار حکومتی یا بین الاقوامی طور پر آزادانہ تصدیق کے تابع ہیں۔

سیکیورٹی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران طالبان کی متعدد پوسٹس خالی پڑی ملیں اور کچھ اہلکار رِت جائیں، جبکہ جنگی علاقے میں لاشوں کے بکھرائے جانے کی اطلاعات بھی آئی ہیں۔ سرحدی علاقوں میں پاک فوج اور سکیورٹی فورسز کی سرچ اور کلیئرنس آپریشنز اب بھی جاری ہیں تاکہ کسی ممکنہ سہولت کار یا مزید حملہ آوروں کا قلع قمع کیا جا سکے۔

سیاسی و سفارتی پس منظر

ذرائع نے اس واقعے کو ایسے وقت میں تشویشناک قرار دیا جب افغان وزیر خارجہ مبینہ طور پر بھارت کے دورے پر موجود ہے — اس تناظر میں بعض سرحدی حلقے اور سکیورٹی مبصرین نے کہا ہے کہ اس حملے سے ایک منظم خطے گیر گٹھ جوڑ کی علامت نظر آتی ہے۔ ان دعوؤں کے مطابق، افغانستان اور بھارت کے درمیان روابط پاکستان کے خلاف عدم استحکام پھیلانے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں — تاہم یہ طبیعتی سیاسی اور سفارتی دعوے ہیں اور بین الاقومی سطح پر مستقل ثبوت کے بغیر حتمی قرار نہیں دیے گئے۔

مقامی قبائلی ردعمل: افغانی فائرنگ کی سخت مذمت اور افواج کے ساتھ یکجہتی

سرحد کے پاکستان جانب کے قبائلی علاقوں کے رہنماؤں اور مقامی "غیور قبائل” کے ترجمانوں نے افغان فورسز کی مبینہ بلا اشتعال فائرنگ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اعلان کیا کہ وہ اپنی مسلح قبائلی روایات کے تحت پاک افواج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قبائلی رہنماؤں نے کہا:

  • "ہم اپنی افواج پاکستان کے ساتھ ہیں اور وطن کا دفاع اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔”

  • "افغان مہمان بن کر آئیں گے تو سر پر بٹھائیں گے، دشمن بن کر آئیں گے تو جواب گولی سے دیں گے۔”

  • "پاکستان نے طویل عرصے تک افغان مہاجرین کی میزبانی کی — کیا یہی قدر دانی کا صلہ ہے؟ ہم مل کر افغانیوں کو سبق سکھائیں گے۔”

قبائلی بیانات میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر سرحد پار سے جارحیت جاری رہی تو مقامی آبادی بھی دفاعی اور مشترکہ اقدامات میں شمولیت اختیار کرے گی۔

سرحدی سلامتی اور علاقائی استحکام کے خطرات

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال جہاں سرحدی فائرنگ اور پیرامیٹر پار دہشت گردی کے امکانات موجود ہوں، وہ علاقائی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ خاص طور پر جب دعوے بین الاقوامی گٹھ جوڑ یا پراکسی جنگ کی جانب اشارہ کرتے ہیں تو غلط فہمیاں اور عسکری جوابی کارروائیاں بڑھ سکتی ہیں، جس سے کشیدگی مزید پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔

سرکاری بیانات اور عالمی ردِ عمل (ابتدائی)

فی الوقت وفاقی یا عسکری ذرائع کی جانب سے جاری سرکاری باضابطہ بیان کا حوالہ یہاں شامل نہیں کیا گیا — دستیاب معلومات سیکیورٹی ذرائع اور مقامی بیانات پر مشتمل ہیں۔ بین الاقوامی یا پڑوسی ممالک کی جانب سے کسی باضابطہ ردعمل یا ثالثی کی پیشکش کی اطلاع ابھی موصول نہیں ہوئی۔ اس واقعے کے بعد سفارتی سطح پر رابطوں اور وضاحتوں کی توقع کی جا سکتی ہے تاکہ صورتحال کو قابو میں رکھا جا سکے اور کسی بڑے تنازعے سے بچا جا سکے۔

نتیجہ: حقیقت کی جانچ ضروری مگر اختیارِ دفاع مکمل

یہ واقعہ ایک حساس اور پیچیدہ مرحلے میں رونما ہوا ہے — جہاں دعوے شدّت اختیار کر سکتے ہیں اور ردعمل تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے جوابی کارروائیاں اس بات کی علامت ہیں کہ ریاست اپنی حدود اور شہریوں کے تحفظ کے لیے سخت کارروائی کرنے پر توانائی خرچ کر رہی ہے۔ دوسری طرف، اس تنازعے کی بین الاقوامی سطح پر شواہد کی بنیاد پر آزادانہ تحقیقات کے ذریعے تصدیق اور سفارتی مراعات کے ذریعے تناؤ کم کرنا ناگزیر ہوگا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button