
خواب دیکھیں خواہشیں پالیں آزوئیں اوڑھیں …….حیدر جاوید سید
الیکٹرانک میڈیا کے پہلے دن سے ٹی وی چینلوں پر براجمان ہوکر بھاشن دینا شروع کیئے سیاستدان چور ہیں فوج نہ ہوتی تو بھارت ملک پر قبضہ کرچکا ہوتا ہاں ایک دیوتا نے جنم لیا ہے
مجھے اعتراف ہے کہ میں اب بھی خواب دیکھتا ہوں خواہشیں پالتا ہوں اور آزوئیں اوڑھتا ہوں یہ سب اس لئے ہے کہ ابھی زندہ ہوں آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کو محسوس کررہا ہوں چوبیس میں سے پندرہ سولہ گھنٹے لائبریری میں کتابوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے خواب دیکھنے کی عادت نہیں جاتی کچھ دوست و احباب یاملنے کیلئے آنے والے اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ میں انہیں وقت رخصت کوئی کتاب تحفے میں نہیں دیتا
ایک دیرینہ دوست کہتا ہے ” شاہ تم اپنی لائبریری پر سانپ بن کر بیٹھے ہو مرجاو گے تو فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کے ڈھیر میں پڑی ہوں گی تمہاری لائبریری کی کتابیں یا پنواڑیوں کے ہاتھوں ورق ورق ہوں گی ” میں اس دوست کی بات سے لگے زخم کو برسوں سے ہرا بھرا ہی دیکھ رہا ہوں اچھا ویسے ہم مرہی گئے تو کیا ہوگا ؟
پلاو کھائیں گے احباب اور فاتحہ ہوگا ، ایک دن میں نے اپنی اہلیہ سے کہا ” اگر میں سفر حیات طے کرکے نکل لوں تو سوئم والے دن زردہ ضرور بنوانا اور چپکے سے ایک پلیٹ جسمیں نصف زردہ اور نصف پلاو ہو میری قبر پر پھیلا دینا پرندے چُگیں گے تو مجھے سکون ملے گا ” آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سکون کی جگہ ثواب کیوں نہیں کہا؟ ہمارے معاملے اب گناہو ثواب سے آگے کے ہیں
چند برس ادھر مجھ سے ایک صاحب نے تلخی بھرے بلکہ کڑوے لہجے میں کہا ” شاہ تم بروز قیامت مالک دوجہاں کو کیا منہ دیکھاو گے اور کیسے حساب دو گے ؟ ” میں نے رسان سے اسے کہا اگر قیامت ہوئی تو منہ مبارک یہی ہے حساب ہوا تو اُس سے کہہ دوں گا یاروں سے حساب کیسا ” کہنے لگا سمجھا نہیں ۔ عرض کیا چھوٹے سے دماغ پر زیادہ زور نہ دو کہیں چٹخ نہ جائے بس اتنی بات سمجھ لو دوست دستگیری کیلئے ہوتے ہیں حساب کیلئے نہیں
معاف کیجے گا آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیسی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں ، آپ درست سوچ رہے ہیں چار اور خبروں اور روایتوں کے انبار ہیں لیکن میں کچھ اور لکھ رہا ہوں ۔
سچ بتاوں میں اپنے دوست محمد عامر حسینی کی گزشتہ روز کی ایک تحریر پر کچھ لکھنا چاہتا تھا حسینی نے اپنی تحریر میں صحافیوں کی دو اقسام بارے تفصیل سے بات کی میں اسے بتانا چاہتا تھا صحافی فقط ان دو اقسام کے ہی نہیں ہوتے کچھ اقسام اور بھی ہیں ایک تو وہی مشہور زمانہ ففتھ جنریشن وار کے لئے ایجنسیوں کی چھتر چھایا میں تخلیق کی گئی قسم ہے جس نے الیکٹرانک میڈیا کے پہلے دن سے ٹی وی چینلوں پر براجمان ہوکر بھاشن دینا شروع کیئے سیاستدان چور ہیں فوج نہ ہوتی تو بھارت ملک پر قبضہ کرچکا ہوتا ہاں ایک دیوتا نے جنم لیا ہے وہ سمارٹ ہے دیانتدار ہے اگر اسے موقع مل جائے تو یہ ملک یورپ سے آگے بھاگے گا کیونکہ یورپ کو اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ کس کی بات ہورہی ہے ؟
اسی کی جو جرمنی اور جاپان کی سرحد ملاتے ہوئے ادھر اُدھر نہیں دیکھتا اور سال کے بارہ موسم بتاتے ہوئے کہتا تھا یہ پاکستان کیلئے قدرت کا انعام ہے
صحافیوں کی دوسری قسم مخبریوں کی ہوتی ہے یہ ہوتے تو صحافی ہی ہیں لیکن چند ہزار روپے ماہانہ کے وظیفے پر ایجنسیوں کیلئے مخبریاں کرتے ہیں تیسری قسم ان صحافیوں کی ہوتی ہے جو صبح ناشتے کے بغیر گھر سے نکلتے ہیں ان کا ناشتہ کسی پریس کانفرنس کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے
مزید اقسام بھی ہیں لکھ اس لئے نہیں رہا کہ ایڈیٹوریل والے کہہ دیں گے یہ کالم قابل اشاعت نہیں یا وہ چند سطور پہ قینچی چلادیں گے اس لئے کسی دن الگ سے صحافیوں کی لگ بھگ نصف درجن سے اوپر کی اقسام پر لکھوں گا اور اس تحریر کو سوشل میڈیا پر لگادوں گا
اچھا صحافیوں کی سب سے مظلوم مجبور اور بے نوا قسم وہ ہے جو میڈیا ہاوسز کے اندر ڈیسکوں پر کام کرتی ہے ان کی اکثریت جب گھر پہنچتی ہے تو بچے سوچکے ہوتے ہیں بچے بیدار ہوکر سکول جانے لگتے ہیں تو یہ سو رہے ہوتے ہیں ان ڈیسک والے صحافیوں کو وہ سارے طنز طعنے گالیاں بلاوجہ کھانی سہنی پڑتی ہیں جو لوگ منہ پھاڑ کے صحافیوں بارے اچھال دیتے ہیں ساعت بھر کیلئے رُکیئے
ہمارے مرحوم سرائیکی قوم پرست رہنما بیرسٹر تاج محمد لنگاہ کہا کرتے تھے ” یار شاہ پنجاب اپنڑی لُٹ مار اچ ساکوں ( سرائیکیوں کو ) تو حصہ نہیں دیتا تو ہم اس کے حصے کی گالیاں کیوں کھائیں ؟ ” میرے پنجابی دوست بالائی سطور والی بات پر ناراض تو ہوں گے لیکن انہیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہئے کہ لوگ یعنی غیر پنجابی اقوام ان سے ناراض کیوں ہیں ؟
کچھ دوست اور پڑھنے والے یہ شکوہ کرتے ہیں کہ اب کچھ عرصہ قبل کی طرح روزانہ یا ایک دن کے وقفے سے کالم کیوں نہیں لکھتا ، بس دل نہیں چاہتا سب سے بڑی وجہ پاپولرازم کے گھاٹ سے سیراب نہ ہونا ہے ہمارے اساتذہ کہتے تھے کسی سیاسی جماعت کیلئے ہمدردی انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن اسے حق اور حسینی سمجھ کر باقیوں کو ظالم و یزیدی سمجھنا جہالت کی آخری منزل پر قیام کرنا ہے یہاں وقت کے ساتھ ظالم اور مظلوم حسینی و یزیدی بدلتے رہتے ہیں فقیر راحموں اسے چھوت کی بیماری جیسا سمجھتا ہے ہمارے لئے ممکن نہیں کہ اس سے اختلاف کریں
جھوٹ اور پاپولرازم کی ” کیری ” میں سے سچ تلاش کرنا اوکھا نہیں نا ممکن ہے سچ یہ ہے کہ ہم ایک سیکورٹی اسٹیٹ میں جی بس رہے ہیں سیکورٹی اسٹیٹ کے طبقاتی نظام میں سے جمہوریت کیلئے راستہ جدوجہد سے نکالا جاتا ہے بم کو لات مار کر بالکل نہیں جوانی کے برسوں میں ہمیں بھی بم سے فٹبال کھیلنے کا شوق تھا پھر وقت حالات موسموں اور دوسری بہت ساری باتوں نے یہ سمجھایا کہ بات قرینے سے کرنے کا ڈھنگ واجب ہے
بس ہماری نسل کے بچے کھچے لوگ واجبات کی چکی میں پس رہے ہیں اب آپ یاتو اپنے حصے کے واجب کا حق ادا کریں یا پھر پاپولرازم کی کلہاڑی اٹھالیں فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے
ہمارے چار اور جو ہورہا ہے وہ من و عن سبھی پہ عیاں ہے ہم سبھی اسے اپنی اپنی آنکھ سے دیکھتے سمجھتے ہیں میرے خیال میں یہ ہم سب کا حق ہے لیکن اپنی فہم سے اختلاف کرنے والے یا والوں کو گالی دینے ٹوڈی کہنے کی روش نہیں اپنانی چاہئے
اچھا آجکل سوشل میڈیا پر جیالوں اور جاتی امرا کے متوالوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے بڑی دلچسپ صورتحال ہے مشورہ یہ ہے کہ تماشائی کے طور پر لطف لیجے مگر کچھ فاصلے سے ایسا نہ ہوکہ قریب سے لڑائی دیکھنے کے شوق میں اپنی آنکھ ناک یا ماتھا زخمی کروا بیٹھیں
اب چلتے چلتے یہ عرض کردوں کہ حالیہ سیلاب سے صوبہ پنجاب میں ایک کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ان متاثرین کی حالت دن بدن پتلی ہوتی جارہی ہے موسم تبدیل ہورہا ہے کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہزاروں خاندانوں کا کوئی پرسان حال نہیں پنجاب حکومت پچھلے چند ماہ یا یوں کہہ لیجے پندرہ اگست سے آج تک جتنی رقم تشہیری مہم پر اڑائی یہ رقم اگر سیلاب متاثرین پر خرچ کی جاتی تو مناسب ہوتا ہم اور آپ عرض ہی کر سکتے ہیں لیکن عرض کرنے سے قبل ہاتھ پاوں اور منہ بچا کر رکھنا ضروری ہے کیونکہ پنجاب سرکار نے بھی ففتھ جنریشن وار جیسی ایک رجمنٹ میدان میں اتاری ہوئی ہے وہ فوراً کہہ دے گی تم جیالے تم اڈیالوی تم پنجاب کے دشمن
پیارے قارین ! باتیں اور بہت ہیں خبریں بھی ہیں کچھ خاص خبریں بھی مگر کیا کیجے کہ ان پہ لکھنے کو جی آمادہ نہیں ہوتا وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہرشخص اپنی مرضی کی بات پڑھنا سننا چاہتا ہے مثلاً آزاد کشمیر کی حالیہ عوامی تحریک کے دنوں میں ایک آدھ تحریر اور چند خبریں اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر لکھنے پر چند لوگوں نے کہا تم اینٹی پاکستان ہو ۔
عرض کرنا پڑا میں نے کبھی محب وطن اور مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی نہیں کیا
اساتذہ کہتے تھے صحافی کا دین دھرم قلم مزدوری ہوتا ہے اسے حب الوطنی سے دامن بچاکر رکھنا چاہئے کیونکہ یہاں ہر شخص
کی حب الوطنی دیکھنے پرکھنے کی اپنی اپنی عینک ہے
خیر چھوڑیئے ان باتوں کو بارِ دیگر عرض ہے میں اب بھی خواب دیکھتا ہوں جی چاہتا ہے کہ سیکورٹی اسٹیٹ کے طبقاتی نظام کی جگہ جمہوریت ہو لوگ دوسرے کی فہم عقیدے اور آنکھ میں جوتوں اور برچھیوں سمیت نہ گھسیں بلکہ ان کا احترام کریں سٹریٹ جسٹس کی بڑھتی ہوئی دیوانگی کے خلاف سب مل کر آواز بلند کریں اپنے حصے کی روٹی میں مستحق بہن بھائیوں کو شریک کریں
یہ سب خوابی کتابی باتیں لگتی ہیں لیکن اگر ہوجائیں تو پرکھوں سے ورثے میں ملے بند دماغ سماج اور بدبودار نظام سے جان چھوٹ سکتی ہے اس لیئے خواب دیکھنا ترک نہ کیجے خوف اور ترغیب کی کاشتوں میں حصہ ڈالنے سے گریز کیجے سلامت و شاد رہیں باقی باتیں پھر سہی