
"ہمیں روس یا امریکہ نہ سمجھو — ہم تمہاری ہر رگ سے آشنا ہیں”: افغانستان کو پسپا کرنے پر پاکستانی عوام کا ردِعمل
کئی شہریوں نے اسے پاکستان کی خودمختاری اور مسلح افواج کی صلاحیت کے لیے حمایت کے طور پر دیکھا خاص طور پر وہ لوگ جو سرحدی سکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز کے حامی ہیں
وائس آف جرمنی اردو نیوز -سوشل میڈیا ڈیسک
گزشتہ روز سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں گردش کرنے والے ایک جذباتی پیغام نے ملک گیر بحث چھڑوا دی: "ہمیں روس یا امریکہ نہ سمجھو، ہم تمہاری ہر رگ سے آشنا ہیں — جو تمہیں دو سپر پاور سے بچا سکتا ہے، وہ بھی تمہیں مثال بنا سکتا ہے”. اس پیغام کو ملکی سرحدی کشیدگی اور پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تازہ ترین واقعات کے تناظر میں کئی حلقوں نے پاکستانی قوم کی ایک ایک جذبہ اور قومی خودمختاری کی علامت قرار دیا ہے۔
عوامی ردعمل: ایک امتزاجِ حمایت
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، مقامی بازاروں اور رہائشی علاقوں میں اس پیغام کو تیزی سے شیئر کیا گیا اور عوامی ردعمل متنوع رہا۔ کئی شہریوں نے اسے پاکستان کی خودمختاری اور مسلح افواج کی صلاحیت کے لیے حمایت کے طور پر دیکھا — خاص طور پر وہ لوگ جو سرحدی سکیورٹی اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشنز کے حامی ہیں۔ ایک تجارتی کاروباری طبقے کے نمائندے نے کہا کہ "قوم اپنے سپاہیوں کے پیچھے ہے — ہمیں امن چاہیے مگر خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں”۔
دوسری جانب، کئی شہریوں نے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تصفیے اور امن مذاکرات پر زور دیا۔ خواتین، نوجوان اور سرکاری ملازمین کے اجتماعات میں امن و طولِ مدت قیامِ امن کی اپیل بھی سنائی گئی۔
امن، دفاع اور سفارتکاری — عوامی توقعات
عوامی گفتگو میں دو واضح توقعات نمایاں ہوئیں: (1) حفاظتی اداروں کو دشمن عناصر کا موثر روک تھام کرنا چاہیے، اور (2) حکومت اور ڈپلومیسی کو کشیدگی کو سیاسی اور سفارتی چینلز کے ذریعے حل کرنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عوامی مزاج ایک ہی وقت میں سخت موقف اور تحمل کا متلازم ہے — لوگ اس بات کے پابند ہیں کہ اگر سرحدی مداخلت یا دہشت گردی کے واقعات ہوں تو سخت جواب دیا جائے، مگر وہ براہِ راست جنگ یا طویل مدتی کشیدگی کے حامی نہیں۔
سکیورٹی خدشات اور معاشی اثرات
سرحدی کشیدگی کے شواہد اور علاقائی خطرات نے سرحدی اضلاع میں تجارتی سرگرمیوں اور نقل و حمل پر اثرات ڈالنے کا امکان بڑھا دیا ہے۔ تاجر اور ٹرانسپورٹر یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مستقل کشیدگی سے لوجسٹکس اور بین الصوبائی تجارت متاثر ہوگی، جس سے روزمرہ زندگی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔
بین الاقوامی پہلو اور خطے میں ردِ عمل
علاقائی ممالک اور بین الاقوامی شراکت دار عام طور پر علاقائی کشیدگی میں کمی کے لئے ثالثی اور مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔ ماہرین یہ بھی نوٹ کرتے ہیں کہ کسی بھی بڑھتی ہوئی تناؤ کی صورت میں بین الاقوامی برادری کا کردار اہم ہو جاتا ہے — خاص طور پر انسانی ہمدردی کی فراہمی، سرحدی عبور و مرور کے قواعد، اور ڈیپلومیٹک میکانزم کو فعال رکھنے میں۔
عوامی امنگیں اور آئندہ منظرنامہ
پاکستانی عوام کا عمومی پیغام واضح ہے: وہ اپنی خودمختاری کا تحفظ چاہتے ہیں، اپنے مسلح افواج کی قربانیوں کو سراہتے ہیں، مگر وہ وسیع تر امن، استحکام اور معاشی بہبود بھی چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آئندہ دنوں میں حکومت کے لیے چیلنج یہ ہوگا کہ وہ عوامی حمایت کو برقرار رکھتے ہوئے کشیدگی کو کم کرنے، سفارتی بات چیت کو تیز کرنے اور سرحدی سکیورٹی کو مضبوط کرنے میں توازن قائم کرے۔
خلاصہ:
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے جملے — "ہمیں روس یا امریکہ نہ سمجھو، ہم تمہاری ہر رگ سے آشنا ہیں…” — نے ایک بار پھر قومی جذبات اور خودمختاری کے مطالبے کو اجاگر کیا ہے۔ عوامی ردعمل ملا جلا ہے: ایک طرف مسلح افواج کے شجاعت کی تائید اور سخت موقف کا مطالبہ، دوسری طرف امن پسند عناصر کے ذریعے سفارتی حل اور پُرامن تصفیے کی اپیل۔ آئندہ حکومتی پالیسیاں، سرحدی سکیورٹی اقدامات اور علاقائی سفارتکاری اس بحث کی سمت متعین کریں گے۔



