
پاکستان کے 58 فوجی ہلاک کر دیے، افغانستان کا دعویٰ
پاک افواج کے ابتدائی انکشافات کے مطابق:دشمن کو پہنچنے والا جانی نقصان اور بے اثر ہونے والے عناصر کی تعداد دو سو (200) سے زائد بتائی گئی ہے
طالبان حکومت کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغان افواج نے 25 پاکستانی فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے، 58 فوجی مارے گئے ہیں، اور 30 دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
مجاہد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ”افغانستان کی تمام سرکاری سرحدوں اور ڈی فیکٹو لائنوں پر صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے، اور غیر قانونی سرگرمیوں کو بڑی حد تک روکا گیا ہے۔‘‘
پاکستان کی کارروائیوں کے دوران طالبان کے متعدد کیمپ، پوسٹس، دہشت گرد تربیتی سہولیات اور سپورٹ نیٹ ورکس کو نشانہ بنایا گیا جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور سہولت کاری کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔
پاک افواج کے ابتدائی انکشافات کے مطابق:
23 اہلِ وطن فوجی اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے شہید ہوئے۔
29 فوجی زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
دشمن کو پہنچنے والا جانی نقصان اور بے اثر ہونے والے عناصر کی تعداد دو سو (200) سے زائد بتائی گئی ہے جبکہ زخمی دہشت گردوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے—یہ اعداد و شمار مصدقہ انٹیلی جنس اندازوں اور ابتدائی نقصانات کے تخمینے پر مبنی بتائے گئے ہیں۔
پاک فوج نے کہا ہے کہ شہریوں کے تحفظ اور کولیٹرل نقصان سے بچاؤ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی گئیں۔

وزارت نے مزید کہا، ”اگر مخالف فریق نے دوبارہ افغانستان کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی، تو ہماری مسلح افواج ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور ایک مضبوط جواب دیں گی۔‘‘
طورخم بارڈر کی بندش
طورخم بارڈر کراسنگ، جو دونوں ممالک کے درمیان دو اہم تجارتی راستوں میں سے ایک ہے، اتوار کو اپنے معمول کے وقت صبح آٹھ بجے نہیں کھولی گئی۔
پاکستان افغان حکام پر کالعدم گروپ تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو پناہ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ اسلام آباد کا کہنا ہے کہ یہ گروپ پاکستان کے اندر خونریز حملے کرتا ہے، لیکن کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کی رات کے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ملک کی فوج نے ”نہ صرف افغانستان کی اشتعال انگیزیوں کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ ان کی کئی چوکیاں بھی تباہ کیں، جس سے وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔‘‘
قطر اور سعودی عرب کا اظہار تشویش
قطر کی وزارت خارجہ نے کشیدگی اور خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے ممکنہ نتائج پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس نے دونوں فریقوں پر زور دیا کہ وہ ”مکالمت، سفارت کاری اور تحمل‘‘ کو ترجیح دیں۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں دونوں ممالک سے ”تحمل، کشیدگی سے گریز اور مکالمے اور دانشمندی کو اپنانے‘‘ کا مطالبہ کیا تاکہ کشیدگی کو کم کرنے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے۔

ایک سینئر پاکستانی سکیورٹی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ افغان افواج نے خیبر پختونخوا صوبے کے کئی شمال مغربی سرحدی علاقوں بشمول چترال، باجوڑ، مہمند، انگور اڈا اور کرم کے اضلاع میں فائرنگ کی۔
عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ فوجیوں نے ضلع خیبر میں تیراہ کے قریب اور سرحد پار افغانستان کے ننگرہار صوبے میں بھاری ہتھیاروں سے جواب دیا۔
دونوں ممالک کے درمیان 2,611 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے جسے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔