
پاکستان کا بھارت-افغانستان مشترکہ بیان پر شدید تحفظات کا اظہار: جموں و کشمیر بھارت کا حصہ قرار دینا ناقابل قبول، دفتر خارجہ
"درحقیقت، پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہ جیسے کہ 'فتنۂ خوارج' اور 'فتنۂ ہندوستان' افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں، جنہیں افغان حکومت کی خاموشی یا چشم پوشی حاصل ہے۔"
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز،دفتر خارجہ کے ساتھ
اسلام آباد: پاکستان نے بھارت اور افغانستان کے حالیہ مشترکہ بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور عالمی سفارتی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک سخت ردِعمل میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا نہ صرف کشمیری عوام کی دہائیوں پر محیط قربانیوں کی توہین ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان ایسے کسی بھی بیان کو مسترد کرتا ہے جس میں جموں و کشمیر کی حیثیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا مستقبل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی سے طے ہونا ہے۔
افغان وزیر خارجہ کا دہشت گردی سے متعلق بیان مسترد، الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا
دفتر خارجہ نے افغان وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں کی مبینہ معاونت سے متعلق دیے گئے بیان کو بھی سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیانات زمینی حقائق کے منافی، غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہیں۔
ترجمان نے نشاندہی کی کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے اور اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا:
"درحقیقت، پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہ جیسے کہ ‘فتنۂ خوارج’ اور ‘فتنۂ ہندوستان’ افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں، جنہیں افغان حکومت کی خاموشی یا چشم پوشی حاصل ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان متعدد بار یہ شواہد پیش کر چکا ہے کہ یہ دہشت گرد عناصر افغان حدود سے پاکستانی شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
چار دہائیوں پر محیط افغان میزبانی، اب واپسی کا وقت
ترجمان دفتر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 40 برسوں سے تقریباً چالیس لاکھ افغان شہریوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دی، لیکن افغانستان میں امن و استحکام کے دعووں کے بعد اب وقت آ چکا ہے کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کا عمل تیز کیا جائے۔
انہوں نے کہا:
"افغان عوام سے ہمدردی اپنی جگہ، لیکن اب افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور اپنے شہریوں کی باعزت وطن واپسی کو یقینی بنائے۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان حکومت کو اپنی سرزمین کو دہشت گرد عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکنا ہو گا۔ پاکستان کی جانب سے بارہا افغان حکام کو باور کرایا گیا ہے کہ سرحد پار دہشت گردی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
بھارت کی مداخلت پسندانہ پالیسی کی مذمت
پاکستان نے بھارت کے کردار پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت خطے میں بدامنی اور کشیدگی کو ہوا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بھارتی حکام کی طرف سے افغانستان کے ساتھ پاکستان مخالف بیانیہ اپنانا علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔
ترجمان نے کہا:
"بھارت کی جانب سے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش ایک منظم حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد خطے میں تقسیم اور انتشار کو فروغ دینا ہے۔”
پاکستان کا امن و استحکام کا عزم برقرار
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان افغان عوام کے ساتھ انسانی بنیادوں پر تعاون جاری رکھے گا، لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ باہمی تعلقات باہمی احترام اور داخلی خودمختاری کے اصولوں پر مبنی ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہا:
"پاکستان خطے میں امن و ترقی کا داعی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تمام ہمسایہ ممالک باہمی تعاون، عدم مداخلت، اور تعمیری مکالمے کے اصولوں پر عمل کریں۔”
خلاصہ:
پاکستان نے بھارت اور افغانستان کے حالیہ مشترکہ بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی جدوجہد کی توہین قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ نے افغان وزیر خارجہ کے دہشت گردی سے متعلق الزامات کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دراصل پاکستان دشمن دہشت گرد گروہ افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان نے انسانی بنیادوں پر افغان شہریوں کی چالیس سالہ میزبانی کا اعادہ کرتے ہوئے ان کی باعزت وطن واپسی کا مطالبہ دہرایا، اور علاقائی امن و استحکام کے لیے اپنی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔