کالمزسید عاطف ندیم

سرحدی جھڑپیں، الزام تراشی، اور خطے میں بدلتے سفارتی زاویے……سید عاطف ندیم

پاکستانی تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اب پاکستان کے زیر اثر نہیں رہے اور نئی دہلی سے قربت دراصل طالبان کی سفارتی تنہائی دور کرنے کی کوشش ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی کی نئی اور خطرناک لہر نے جنم لیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، افغان طالبان کی مبینہ چشم پوشی، اور بھارت کے ساتھ افغانستان کے بڑھتے روابط نے دونوں ہمسایہ ممالک کو نہ صرف سفارتی محاذ پر بلکہ سرحدی جھڑپوں تک پہنچا دیا ہے۔
ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ڈیورنڈ لائن کے مختلف مقامات پر افغان طالبان اور پاکستانی افواج کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، ان جھڑپوں میں پاکستان کے 23 فوجی اہلکار شہید اور 29 زخمی ہوئے، جبکہ 200 سے زائد طالبان اور ان سے منسلک شدت پسندوں کو "بے اثر” کر دیا گیا۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں بتایا گیا کہ پاکستانی افواج نے "بلااشتعال حملے” کے جواب میں طالبان کی 21 پوسٹیں، کیمپ، اور دہشت گردوں کے مبینہ انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا، جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا تھا۔
جواباً افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے لڑائی کے دوران پاکستان کی 20 چیک پوسٹوں پر قبضہ کیا، جو بعد میں واپس کر دی گئیں۔ ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ افغانستان نے پاکستان پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جس پر پاکستان نے تردید نہ تصدیق کی۔ پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو تحریک طالبان پاکستان (TTP)، فتنہ الخوارج (FAK)، داعش (ISKP) اور دیگر گروہوں کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے شدید ردعمل میں کہا:”اگر افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوگی، تو پاکستان کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ انڈیا افغانستان کے ذریعے پاکستان سے اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔”
تنازع کی نوعیت اس وقت مزید سنگین ہوگئی جب طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھارت کا سرکاری دورہ کیا جو ایک ایسا اقدام تھا جو پاکستان کے حلقوں میں "علامتی شکست ، بےوفائی اور منافقت” کے طور پر دیکھا گیا۔
متقی نے نئی دہلی میں ایک سخت لب و لہجے میں کہا: "افغانیوں کا حوصلہ نہ آزمائیں۔ اگر ایسا کرنا ہے تو پہلے برطانیہ، سویت یونین اور امریکہ سے پوچھیں۔ افغانستان زور زبردستی سے نہیں جھکتا۔” کیا افغان یہ بھول گئے کہ روس کو شکست پاکستان کی مدد کے بغیر نا ممکن تھی.جی ہاں، سوویت-افغان جنگ (1979-1989) میں پاکستان نے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان نےکئی سال تک سوویت فوجوں سے سخت مزاحمت کی جس کے بغیر کامیابی ممکن نہ تھی۔
پاکستانی تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ طالبان اب پاکستان کے زیر اثر نہیں رہے اور نئی دہلی سے قربت دراصل طالبان کی سفارتی تنہائی دور کرنے کی کوشش ہے۔
پاکستان کو امید تھی کہ کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سرحدی سلامتی بہتر ہوگی اور TTP و BLA جیسے گروہوں کی پشت پناہی ختم ہوگی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔
سابق سفیر مسعود خان کے مطابق:”پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ طالبان قیادت پر اثر و رسوخ برقرار رہے گا، لیکن طالبان اب پراکسی کا تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں۔”
صحافی سمیع یوسفزئی نے کہا:”یہ ناقابلِ عمل ہے کہ طالبان افغانستان سے ٹی ٹی پی کو ختم کر دیں۔ وہ خود بھی ایک مزاحمتی تحریک سے اقتدار میں آئے ہیں اور ان کے تاریخی تعلقات ان گروہوں سے جڑے ہوئے ہیں۔”
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کشیدگی کا عسکری حل ممکن نہیں۔ افغانستان پر حملے یا سرحدی جھڑپیں مسئلے کا حل نہیں، بلکہ تعلقات بہتر بنانے کے لیے سفارتی راستے کو ترجیح دینا ہوگی۔
مسعود خان نے مشورہ دیا:”سفارتی گنجائش پیدا کر کے بات چیت شروع کریں۔ چین سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کے پاکستان اور افغانستان دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔”
پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان تین فریقی مذاکراتی فورم پہلے سے موجود ہے جو خطے میں استحکام لانے کا ایک موثر پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔
نتیجہ: تعلقات کا تناؤ دونوں ممالک کے لیے خطرناک
یہ واضح ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ سرحد پر عوامی سطح پر قبائل، تجارت، اور ثقافت کے گہرے تعلقات موجود ہیں، لیکن حکومتوں کے مابین اعتماد کا فقدان، انڈیا کا کردار، اور دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خدشات ان تعلقات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق،”صرف بیان بازی سے آگے بڑھ کر ایک جامع پالیسی، دو طرفہ مکالمہ، علاقائی طاقتوں کی ثالثی اور اندرون ملک سخت فیصلوں سے ہی اس خلیج کو کم کیا جا سکتا ہے۔”

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button