
قدرتی آفات سے آگاہی کے عالمی دن پر لاہور میں سیمینار: محفوظ، پائیدار پاکستان کے قیام کا عزم
درخت کاٹنے والوں کی تعداد لگانے والوں سے زیادہ ہو چکی ہے، جو آفات کی جڑ ہے۔
عامر سہیل-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
لاہور: قدرتی آفات سے بچاؤ اور عوامی آگاہی کے عالمی دن کے موقع پر لائف فار گارڈین اور پاکستان پارٹنرشپ انیشی ایٹو (PPI) کے باہمی اشتراک سے ڈان باسکو ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ لاہور میں ایک اہم سیمینار منعقد کیا گیا جس میں ماحولیاتی ماہرین، سول سوسائٹی کے نمائندگان، حکومتی افسران، طلبہ، صحافیوں اور نوجوان کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
سیمینار کی صدارت سابق صوبائی وزیر اور رکن پنجاب اسمبلی اعجاز عالم آگسٹین نے کی، جبکہ مہمانانِ خصوصی میں ایڈیشنل ڈی جی ای پی اے (پنجاب) نواز مانک، جنرل سیکرٹری پاکستان کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک (PCAN) درِشوار، CTS کی نمائندہ کیتھرین سپنا، سینئر صحافی کامران چوہدری، ریسکیو 1122 کے حیدر علی، HFO کے ساجد کرسٹوفر اور Dignity First کے یوسف بنجامن شامل تھے۔
افتتاحی خطاب: تیاری اور روک تھام کو ترجیح
مہناز جاوید (لائف فار گارڈین) نے سیمینار کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس تقریب کا مقصد عوام میں قدرتی آفات سے بچاؤ، بروقت تیاری، اور پائیدار مزاحمت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا:
“Funds Resilience, Not Disaster”
یعنی وسائل کو ہنگامی ردعمل کے بجائے، تیاری، روک تھام اور کمیونٹی کی مزاحمتی صلاحیت بڑھانے پر خرچ کیا جانا چاہیے۔
اعجاز عالم: شجرکاری، تعلیم اور ذمہ داری ہی نجات کا راستہ ہے
رکنِ پنجاب اسمبلی اعجاز عالم آگسٹین نے اپنے خطاب میں کہا کہ:
"ہمیں اپنی سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ بنانا ہوگا۔
درخت کاٹنے والوں کی تعداد لگانے والوں سے زیادہ ہو چکی ہے، جو آفات کی جڑ ہے۔
حکومت کو کم از کم دس سالہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ ہم آنے والی نسلوں کو تباہی سے بچا سکیں۔”
انہوں نے حالیہ سیلاب میں پاک فوج، ریسکیو 1122 اور پی ڈی ایم اے کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ انفرادی سطح پر ہر شہری کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔
نواز مانک: قدرت کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت
ایڈیشنل ڈی جی ای پی اے پنجاب نواز مانک نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ:
"ہمیں اپنی زندگی کے مصنوعی انداز کو فطرت کے قریب لانا ہوگا۔
انڈسٹریز میں ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب لازمی قرار دی جانی چاہیے۔
اجتماعی ٹرانسپورٹ کو فروغ، شجرکاری میں اضافہ اور ماحول دوست طرز زندگی اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔”
درِشوار: موسمیاتی تبدیلی اور آفات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں
پاکستان کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک (PCAN) کے جنرل سیکرٹری درِشوار نے کہا:
"موسمیاتی تبدیلی کا براہ راست تعلق قدرتی آفات سے ہے۔
ہمیں مقامی سطح پر کمیونٹی کی صلاحیت بڑھانے، خواتین کی شمولیت، اور حکومتی اداروں کے ساتھ سول سوسائٹی کا اشتراک مضبوط بنانا ہوگا۔”
کمیونٹی، میڈیا اور خواتین کی شمولیت ناگزیر
کیتھرین سپنا (CTS) نے کہا کہ قدرتی آفات کے دوران سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو بااختیار بنانا اور قیادت کے مواقع فراہم کرنا لازمی ہے۔
کامران چوہدری (سینئر صحافی) نے کہا کہ میڈیا صرف خبر نہیں، بلکہ ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کے ذریعے عوام کو آگاہی دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا:
"ذمہ دار صحافت انسانی جانیں بچا سکتی ہے۔ میڈیا کو آفات سے بچاؤ کے پیغامات کی ترویج میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔”
ریسکیو 1122 کی خدمات، اعزازات اور مستقبل کی تیاری
ریسکیو 1122 کے نمائندے حیدر علی نے بتایا کہ:
"اب تک لائف سیور پروگرام کے تحت 2 کروڑ سے زائد افراد کو تربیت دی جا چکی ہے۔
روزانہ 1000 سے زائد ایمرجنسی کیسز پر رسپانس دیا جاتا ہے۔
ایمبولینس سروس اوسطاً 7 منٹ اور موٹر بائیک یونٹس 4 منٹ میں موقع پر پہنچتے ہیں۔”
انہوں نے زور دیا کہ کمیونٹی کو بھی تربیت دے کر اس دائرہ کار میں لایا جائے تاکہ اجتماعی کوششوں سے قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔
جدید ٹیکنالوجی اور فطرت کا توازن
ساجد کرسٹوفر (HFO) اور یوسف بنجامن (Dignity First) نے کہا کہ:
"بڑھتی ہوئی آبادی، دریا کے کٹاؤ اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ کر رہی ہے۔
ہمیں جنگلات کی بحالی، زمینی حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی، اور ماڈرن سیٹلائٹ ٹیکنالوجی سے استفادہ کر کے آفات کی پیشگی نشاندہی اور روک تھام کو ممکن بنانا ہوگا۔”
شرکاء کا عزم: محفوظ، مضبوط اور پائیدار پاکستان
تقریب کے اختتام پر اعجاز عالم آگسٹین نے ممتاز شرکاء کو یادگاری شیلڈز سے نوازا۔ اس موقع پر تمام حاضرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ:
"ہم سب ایک محفوظ، مضبوط اور پائیدار پاکستان کے قیام کے لیے مل کر کام کریں گے تاکہ آنے والی نسلوں کو بہتر اور محفوظ مستقبل فراہم کیا جا سکے۔”
شرکاء کی نمائندگی
تقریب میں مختلف سماجی تنظیموں، ماحولیاتی اداروں، تعلیمی اداروں، مذہبی و اقلیتی کمیونٹیز کے نمائندگان اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سیمینار نے نہ صرف ایک بامقصد مکالمہ فراہم کیا بلکہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اجتماعی حکمت عملی، عوامی شعور اور بین الادارہ جاتی اشتراک کی اہمیت کو اجاگر کیا۔