
ناصر خان خٹک-پاکستان، وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
ملک بھر میں افغان طالبان کی جانب سے سرحد پار سے کی جانے والی بلا اشتعال جارحیت کی سخت مذمت کی گئی ہے اور عمومِ عوام، سیاسی حلقوں اور سول سوسائٹی نے یکساں طور پر پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ شہریوں نے ایک آواز ہو کر کہا کہ کسی بیرونی طاقت یا پراکسی فورس کی ایما پر پاکستان کی سرحدوں پر حملے قابلِ قبول نہیں اور پورا ملک اپنے مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
عوامی غم و غصّہ، یکجہتی اور مطالبات
عوامی ردِعمل میں واضح طور پر یہ پیغام سامنے آیا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان بھائیوں کو پناہ و تحفظ دیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی بھی ایسے عناصر کے لیے بطور اڈہ استعمال نہ ہونے دے جو پاکستان کی داخلی سلامتی یا شہریوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالیں۔ شہریوں نے مطالبہ کیا:
افغانستان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد پناہ گاہوں کو ختم کروانا چاہیے۔
افغانستان میں موجود دہشت گرد عناصر کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالہ کیا جائے۔
کسی بھی بیرونی اشارے پر پاکستان کے خلاف بغاوت یا جارحیت ناقابلِ قبول ہے، اور اس کا جواب دیا جائے گا۔
کئی شہریوں نے یہ بھی کہا کہ اگر افغانستان کی سرزمین پر موجود گروپ بھارتی یا دیگر بیرونی ایجنٹوں کے اشاروں پر پاکستان کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں تو اس کا جواب صرف فوجی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر شفاف اور مضبوط موقف رکھ کر بھی دیا جانا چاہیے۔
مطالبۂ انصاف: واپس پکڑو اور حوالہ کرو
عوام نے یہ مطالبہ دہرایا کہ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قانونی طریقے سے پاکستان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ ملک کے اندر دوبارہ سر اٹھا کر نا کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 40 سالہ قربانی اور پناہ کے رشتے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان پر حملے برداشت کیے جائیں — خلاف ورزی کی صورت میں سخت جواب دیا جائے گا۔
مذہبی و سماجی تناظر: بھائی چارے کا پیغام اور ملامت
کئی حلقوں نے اس پہلو پر بھی زور دیا کہ ایک مسلمان اکائی کے ناطے افغانستان کے ساتھ تعلقات اہم ہیں، مگر یہ بھی کہا گیا کہ کسی غیر مسلم قوت کے ہاتھ میں آ کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانا قابلِ افسوس اور ناقابلِ قبول عمل ہے۔ عوامی تجزیوں میں یہ تاثر بھی آیا کہ افغانستان کو بھارت یا کسی دیگر ملک کے اشاروں پر پاکستان کے خلاف کردار ادا کرنا ترک کرنا چاہیے۔
پاک فوج کے تئیں اعتماد اور تعاون کی یقین دہانی
ملکی سرحدوں کی حفاظت کے عزم کے تحت شہریوں نے پاک فوج کو بھرپور تعاون اور مدد کی یقین دہانی کروائی۔ عوامی سطح پر یہ تاثر غالب رہا کہ پاک فوج نے جوابی کارروائی میں شاندار پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا اور ملک کی حدود کا دفاع بخوبی کیا۔ بعض حلقوں نے کہا کہ پاک فوج نے دشمن کے خلاف مؤثر ردِعمل دے کر بین الاقوامی سطح پر بھی ہماری ساکھ مضبوط کی ہے۔
سیاسی اور سفارتی زاویے — عوامی توقعات
عوامی گفتگو میں سفارتی محاذ پر بھی ایک مؤثر حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ شہریوں کا کہنا تھا کہ صرف فوجی جواب کافی نہیں؛ حکومت اور خارجہ محاذ کو بھی اس معاملے میں واضح اور سخت موقف اپنانا چاہیے تاکہ سرحد پار سے اس طرح کے حملے غیر ملکی سرزمین سے قابلِ قبول نہ رہ جائیں۔ عوام نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی برادری خصوصاً اقوامِ متحدہ اور علاقائی فورمز پر اس مسئلے کو اٹھایا جائے۔
احتجاجی رویّہ اور قومی یکجہتی
سماجی رابطوں اور سرکاری و غیر سرکاری حلقوں میں ایک جارحانہ ردِعمل کے بجائے قومی یکجہتی کا زور دیکھنے میں آیا۔ مکالمہ اس بات کی طرف جھکا کہ پاکستان کو داخلی طور پر متحد رہنا چاہیے اور بیرونی سازشوں کے مقابلے میں تمام سیاسی، مذہبی اور سماجی طبقات کو مل کر قومی سلامتی کا تحفظ کرنا ہوگا۔
عام شہریوں کے تاثرات (ماہر، تاجر، استاد اور طالبعلم)
ایک تاجر نے کہا: "سرحدوں پر حملے ہمارے کاروبار اور روزگار کو بھی متاثر کرتے ہیں، ہم فوج کے ساتھ ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت سفارتی سطح پر بھی اپنا مؤقف مضبوط کرے۔”
ایک مدرسے کے استاد نے کہا: "افغان عوام اور پاکستان کے روابط قدیم ہیں، مگر دہشت گردوں کو کسی بھی سرزمین پر ہجرت کی اجازت ہوسکتی ہے تو ہم اعتراض کریں گے۔”
ایک طالبعلم نے کہا: "ہم اپنے جوانوں کے ساتھ ہیں۔ ہمارا مستقبل اور سکول، کالج محفوظ رہیں — یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔”
نتیجہ: یکجہتی، دفاعِ وطن اور متوازن حکمتِ عملی
عوامی ردِعمل میں یکسوئی واضح ہے — افغانستان کی جانب سے یا کسی بھی بیرونی قوت کی جانب سے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ شہریوں نے ایک طرف تو پاک فوج کے مؤثر دفاع کو سراہا اور یکجہتی کا اظہار کیا، دوسری طرف حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ سفارتی، قانونی اور سیکیورٹی سطح پر جامع اقدامات کریں تاکہ مستقبل میں ایسی وارداتوں کے امکانات کم ہوں۔
قومی یکجہتی، فوجی چوکسیت اور سفارتی محاذ پر متوازن حکمتِ عملی ہی وہ راستہ نظر آتا ہے جس کے ذریعے خطے میں طویل المدتی امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔