
جی جناب ! جان کی امان رہے تو کچھ عرض کریں ؟ …..حیدر جاوید سید
آپ ناراض تو نہیں ہوں گے کہ فقیر راحموں امریکی برانڈ کیوں استعمال کرتا ہے ؟ ویسے ناراض ہونے والی بات بھی نہیں بندہ اگر امریکہ نہ جاسکے تو امریکی برانڈ سے جی بہلانے میں امر مانع کوئی نہیں
ہماری دانست میں بات یا باتیں اتنی سادہ نہیں جیسی جناب نے کہیں اور سامنے بیٹھے پشوری عزیزوں کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی سے لائے گئے مہمان و مہان صحافیوں اور ” سینئر ” تجزیہ کاروں نے سماعت کیں ، ہم دوسرے ان ٹی ناظرین کی طرح ایسے سست الوجود ہیں کہ چینل تبدیل کرنے کی مشقت سے تھک جاتے ہیں ریموٹ سائٹ ٹیبل پہ دھرا رہتا ہے سامنے کی چھوٹی ٹیبل پر درجن بھر کتابیں اور چند اخبار اب کون گردن گھمائے ہاتھ بڑھاکر ریموٹ اٹھائے چینل بدلے ۔
اس موقع پر میں بیری درخت کے نیچے استراحت فرماتے اور ایک اونٹ سوار دو سرائیکیوں کا تاریخی واقع سنانا چاہتا تھا پھر یاد آیا آج کل ملک کے حالات اچھے نہیں میں ستاسٹھ برس مکمل کرنے سے کچھ دنوں کے فاصلے پر ہوں
مجھے یاد نہیں پڑتا کبھی اس ملک کے حالات اچھے بھی رہے ہوں اسلام اور پاکستان ہمیشہ خطرے میں ہی دیکھتا سنتا آیا مہنگائی ہمیشہ ہوئی آجکل تو مہنگائی کا مہنگائی سے منہ توڑ مقابلہ جاری ہے اس سے زیادہ بدترین بدصورت اور خوفناک مہنگائی کیا ہوگی کہ ہمزاد فقیر راحموں سنتالیس برس کے دلبر یار ڈن ہل کو دغا دے کر ایک دوسرے امریکی برانڈ سے جی بہلاتا ہے
آپ ناراض تو نہیں ہوں گے کہ فقیر راحموں امریکی برانڈ کیوں استعمال کرتا ہے ؟ ویسے ناراض ہونے والی بات بھی نہیں بندہ اگر امریکہ نہ جاسکے تو امریکی برانڈ سے جی بہلانے میں امر مانع کوئی نہیں ، میں کیا لکھ رہا ہوں اسے پڑھ کر پریشان ہرگز نہ ہوں کیونکہ شاعر کہتا ہے
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
معاف کیجے بات کچھ دوسری طرف نکل لی مجھے تو یہ عرض کرنا تھا کہ کہانی اتنی سادہ بالکل نہیں جس سادگی سے آپ نے سنائی اور سامعین و ناظرین نے سنی قارین نے اگلے روز کے اخبارات میں پڑھی
اچھا یہ کہانی فارمولہ فلموں اور چربہ ڈراموں جیسی نہیں یہ ہماری کہانی ہے ہم سے مراد پاکستانی فیڈریشن میں آباد قومیتوں کی جنہیں یک قومیتی کلے سے باندھ دیا گیا دیا گیا اب بھی باندھے رکھنے کیلئے ہر طریقہ آزمایا جاتا ہے
خیر ہم آگے بڑھتے اور اس موضوع پر باتیں کرتے ہیں جن پر آپ نے بات کی کیا 2021 کے اوائل میں باضابطہ طور پر شروع ہوئے کابل مذاکرات صرف تحریک انصاف کی حکومت کا فیصلہ تھے ؟ میرا خیال ہے کہ تحریک انصاف اتنی ہی ذمہ دار اور حصہ دار ہے جتنا اس کا ” بس اور کردار ” تھا کیونکہ سیکورٹی اسٹیٹ میں طبقاتی نظام کی گھوڑا دور محض جاکیوں کا جی بہلانے کیلئے ہوتی ہے اور تماشائیوں سے تالیاں بجوانے کیلئے
ٹرافی اور آمدنی کی ملکیت کے فیصلے پہلے سے کر لیئے گئے ہوتے ہیں ملکیت کس کی ہے ؟
اس سوال کا جواب اٹھتہر برسوں سے سامنے والی دیوار پر لکھا ہے ، سر ایک ساعت کیلئے رُکیئے یہ فقیر راحموں کچھ کہہ رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ون مین شو کے تنِ مردہ میں روح پھونکنے والے کون تھے دیوتا گیری اور ذاتی جماعت کی اس سوچ نے کہاں جنم لیا وہیں نا جہاں ہم سب جانتے ہیں کی سوچ روز اول سے رقصاں رہی ؟
اس حساب سے یہ ایک شراکت داری تھی چور لٹیرے بھارت نواز سیاستدانوں کے خلاف اس شراکت داری میں آپ محض سرمایہ کار نہیں تھے یعنی سلیپنگ پارٹنر نہیں اس لئے نفع نقصان میں اپنا حصہ قبول کیجے یہی جوانمردی ہے
عرض کرنے کا مطلب یہی ہے کہ دیوتا گیری اور اپنی جماعت بنانے بنوانے کا مقصد چور لٹیرے بھارت نواز کرپٹ سیاستدانوں کی جگہ سمارٹ ایماندار محب وطن قیادت کے ذریعے ملک کو اوپر اٹھانا تھا یہ سوچ کیوں پیدا ہوئی ؟
یہ ایک سوال ہے مجھے جو جواب سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور قائدین ہزار خامیوں کجیوں کوتاہیوں کے باوجود خود کو جوابدہ سمجھتی ہیں دیوتا جوابدہ نہیں ہوتا اور رنگروٹ فقط احکامات بجا لاتے ہیں
چلیں جانے دیجئے یہ ذرا ثقیل باتیں ہیں ہم اور آپ کے ساتھ مملکتِ پاکستان جہاں آج کھڑے ہیں یہ کوئی قابل فخر مقام ہر گز نہیں یہاں تک کیسے پہنچے لائے گئے اس پر بات کریں تو وہ ذرا لمبی ہوجائے گی آپ کی ذمہ داریاں بہت ہیں اور ہمارا روزی روٹی
کا دیہاڑی والا جھمیلہ ہردو لمبی بات کے متحمل نہیں ہوسکتے
عرض فقط یہ کرنا ہے کہ جن معاملات و مسائل کا آج تنہا عمران خان اور تحریک انصاف کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے ان معاملات و مسائل کے کچھ دوسرے لوگ بھی ذمہ دار ہیں دو باتیں بطور مثال عرض کرتا ہوں پہلی یہ کہ کیا افغان پالیسی بُننے میں سیاسی قائدین کا کبھی کوئی کردار رہا ؟ دوسری یہ جو 78 برسوں میں تجربے ہوئے یہ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کی لیباٹری میں ہوئے یا کہیں اور ؟
افغان پالیسی بُننے اور تجربوں پہ تجربے کرنے کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جانا از بس ضروری ہے اس کے بغیر دھول صاف نہیں ہوگی اور درست بات تک نہیں پہنچا جاسکے گا
ایک تیسری بات بھی ہے وہ یہ کہ کسی دن ” سب جانتے ہیں ” کے زعم میں مبتلا لوگوں کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ان کے تجربات نے ملک اور عوام کو کیا دیا ؟
یہ درست ہے کہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے مگر کیا یہ بھی تجربوں کی کوکھ سے پیدا ہوکر گلے نہیں پڑی سوال اور بھی بہت ہیں لیکن فی الوقت یہی کہ آج جن معاملات اور مسائل کا تنہا ذمہ دار عمران خان اور اس کی جماعت کو ٹھہرایا جارہا ہے ان کی جامع تحقیقات کیلئے ایک قومی کمیشن کی ضرورت ہے جوکہ اس ملک میں بننا نہیں اور لوگ کبھی یہ نہیں جان پائیں گے کہ پورا سچ کیا ہے
جناب عالی ! پوراسچ جاننا بہت ضروری ہے اس لیئے بھی کہ تجربوں کے شوق میں بری بھلی دو سیاسی جماعتوں اے این پی اور پیپلز پارٹی کا قتل عام ہوا ہمزاد فقیر راحموں اسے ” مُسلہ ” کہتا ہے کمزور کھال اور بوڑھی ہڈیوں کی وجہ سے اس کی ہاں میں ہاں ملانا کچھ مشکل محسوس ہورہا ہے پھر بھی کہتا صحیح ہے چاہے سخت بات ہے
آخری بات یہ ہے کہ جب تحریک انصاف کا وفد کابل مذاکرات کررہا تھا تو کیا ریکارڈ پر اسٹیبلشمنٹ کا کوئی اعتراض آیا ؟ معاف کیجے گا اس وقت تو دونوں ایک ہی کشتی پر سوار تھے صرف یہی نہیں بلکہ اس سے قبل کابل کو دوحا معاہدے کے برعکس طالبان کی تحویل میں دلوانے کیلئے بھی دونوں اکٹھے و پرجوش اور متحرک تھے
ہمارے ہاں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پہلے ہیرو گھڑتے ہیں پھر ولن بناتے ہیں بہرطور اس ساری کھیچل پر قومی مکالمے کی ضرورت ہے اور ایک قومی کمیشن کی بھی
ہم نیک و بد حضور کو بتلائے سمجھائے دیتے ہیں حالانکہ اس کی ضرورت نا ہے کیونکہ آپ ” سب جانتے ہیں ” اور آپ ہی سب جانتے ہیں