
آئینہ زندگی: سائنسی انقلاب یا عالمی خطرہ؟ ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
منصوبہ جو زندگی کی اصل کو جاننے کے لیے شروع ہوا، ایک ایسا امکان بن چکا ہے جو خود زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
تحریر: بین الاقوامی سائنس و ٹیکنالوجی نیوز ڈیسک
"یہ کبھی بھی ایک لمحہ نہیں تھا، بلکہ کئی مہینوں پر پھیلا ایک احساس تھا، جیسے پانی آہستہ آہستہ ابلتا ہے…” – یہ الفاظ ہیں ڈاکٹر کیٹ اڈامالا کے، جنہیں سائنس اور انسانیت کے درمیان ایک نازک لکیر پر کھڑے ہونے کا تجربہ ہو چکا ہے۔ وہ یونیورسٹی آف مینیسوٹا کی ایک نمایاں سائنس دان ہیں، جو مصنوعی حیاتیات (Synthetic Biology) کے میدان میں تحقیق کر رہی تھیں، جب انہیں احساس ہوا کہ ان کا کام ممکنہ طور پر زمین پر زندگی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
یہ بات صرف ایک سائنسی تجربہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
کیا ہے "آئینہ زندگی”؟
"آئینہ زندگی” (Mirror Life) یا "آئینہ خلیات” وہ فرضی حیاتیاتی اشکال ہیں، جن میں موجود تمام مالیکیولز — جیسے پروٹین، ڈی این اے، آر این اے — اپنی عام فطری اشکال کے "آئینے کے عکس” (mirror image) پر مشتمل ہوں گے۔ بظاہر یہ تصور کسی سائنس فکشن فلم کا معلوم ہوتا ہے، لیکن آج یہ حقیقت کے قریب تر پہنچ چکا ہے۔
فطرت میں، chiral molecules — جن کا مطلب ہوتا ہے کہ ان کے دائیں اور بائیں ہاتھ کی طرح علیحدہ ورژن ہوتے ہیں — زندگی کی اساس ہیں۔ مثال کے طور پر، ہمارے جسم میں موجود پروٹین "بائیں ہاتھ والے امینو ایسڈ” سے بنتے ہیں، جبکہ ڈی این اے اور آر این اے "دائیں ہاتھ والے نیوکلیوٹائڈز” پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اب تصور کریں کہ اگر ایک مکمل جاندار — جیسے بیکٹیریا — انہی مالیکیولز کی "الٹی” اشکال پر مشتمل ہو، تو کیا ہوگا؟
سائنسدانوں کا خواب، دنیا کے لیے ڈراؤنا خواب؟
2019 میں، ڈاکٹر کیٹ اڈامالا اور ان کے ساتھیوں کو امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے 4 ملین ڈالر کی گرانٹ دی گئی تاکہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ کیا "آئینہ خلیات” بنانا ممکن ہے۔
ابتدائی طور پر، مقصد زندگی کی ابتدا کو سمجھنا اور نئے علاج کے امکانات تلاش کرنا تھا — جیسے ایسے مالیکیولز بنانا جو سپر بگس (دوا کے خلاف مزاحم جراثیم) کا توڑ ہو سکیں۔
لیکن جلد ہی، شکوک و شبہات نے جنم لینا شروع کیا۔
"لوگ سوالات پوچھنے لگے،” ڈاکٹر اڈامالا نے بتایا، "ہم سمجھتے رہے کہ ہمارے پاس ان کے جوابات ہیں، لیکن پھر احساس ہوا کہ ہم غلط تھے۔”
کیا یہ خلیات انسانی مدافعتی نظام کو دھوکہ دے سکتے ہیں؟
ماہرین نے سب سے زیادہ جس بات پر تشویش ظاہر کی، وہ یہ تھی کہ یہ "آئینہ خلیات” انسانی مدافعتی نظام کے لیے پوشیدہ ہو سکتے ہیں — یعنی اگر وہ کسی طرح جسم میں داخل ہو جائیں تو مدافعتی نظام انہیں پہچان ہی نہ سکے، اور وہ چپکے سے جسم میں پھیل سکتے ہیں۔
یہ ایک ممکنہ حیاتیاتی ہتھیار کی خصوصیت ہے۔
ڈاکٹر اڈامالا کہتی ہیں، "مجھے لگتا تھا کہ مدافعتی نظام کسی نہ کسی طرح انہیں پہچان لے گا، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ نظام کتنا مخصوص اور محدود ہے۔”
غیر متوقع نتائج کی دہلیز پر کھڑی سائنس
اگرچہ فی الحال مکمل آئینہ خلیات تخلیق کرنا ممکن نہیں، لیکن مصنوعی حیاتیات کی پیشرفت بتاتی ہے کہ اگلے 10 سے 30 سالوں میں یہ حقیقت بن سکتی ہے۔
اس خطرے کے پیشِ نظر، 2023 اور 2024 کے دوران 38 ماہرین پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا، جس میں ماہرین بائیو سیفٹی، ایمیونولوجی، ماحولیات اور حیاتیات کے شعبوں سے شامل تھے۔
دسمبر 2024 میں، اس گروپ نے سائنسی جریدے "Science” میں ایک جامع مضمون شائع کیا:
"Addressing the Dangers of Mirror Life”
(آئینہ زندگی کے خطرات سے نمٹنا)
اس میں بتایا گیا کہ اگر یہ خلیات لیب سے کسی ماحول میں نکل گئے، اور قدرتی جانداروں سے باہمی تعامل نہ کر سکے یا ان سے زیادہ مستحکم ثابت ہوئے، تو یہ ماحول میں ایک نئی اور خطرناک ارتقائی لائن کی شروعات کر سکتے ہیں۔
ممکنہ خطرات:
انسانی صحت کو لاحق خطرہ
مدافعتی نظام سے پوشیدہ رہنے کی صلاحیت
دواؤں سے مزاحمت
ماحولیاتی تباہی
اگر آئینہ بیکٹیریا قدرتی بیکٹیریا سے بہتر کارکردگی دکھائیں
حیاتیاتی توازن بگڑنے کا خدشہ
بایو سیکیورٹی کا بحران
حادثاتی لیک یا حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال
امید اور احتیاط کا درمیانی راستہ
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئینہ مالیکیولز میں کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ ان کا استعمال ایسی دوائیں بنانے میں ہو سکتا ہے جو جسم میں زیادہ دیر تک باقی رہیں، یا کم ردِ عمل پیدا کریں، کیونکہ جسم انہیں نہیں پہچانتا۔
لیکن جب بات مکمل جاندار بنانے کی ہو، تو یہ سائنس سے زیادہ سائنسدانوں کے اخلاقی اور عالمی ضمیر کا امتحان بن جاتی ہے۔
ڈاکٹر اڈامالا کا کہنا ہے:
"ہم ایک ایسے مقام پر آ گئے ہیں جہاں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا:
کیا ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ممکن ہے، یا ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا درست ہے؟”
نتیجہ: احتیاط لازم ہے
"آئینہ زندگی” کے تصور نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے — جہاں سائنس، اخلاقیات اور عالمی تحفظ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ یہ ایک موقع بھی ہے اور ایک ممکنہ سانحہ بھی۔
دنیا کو اب صرف یہ فیصلہ نہیں کرنا کہ ہم کیا بنا سکتے ہیں، بلکہ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہمیں کیا نہیں بنانا چاہیے۔