مشرق وسطیٰاہم خبریں

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ خطرے میں: امریکی سفارتکاری کا نیا امتحان

"اگر حماس کی قیادت نے خود کو سنبھالا نہیں، تو ہم انہیں ختم کر دیں گے، اگر ضرورت پڑی۔ مگر اس میں امریکی زمینی فوج شامل نہیں ہو گی۔"

غزہ/واشنگٹن/یروشلم: غزہ میں جاری کشیدگی اور جنگ بندی کی نازک صورتحال کے تناظر میں امریکہ نے اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔ اتوار کے روز ہونے والے مہلک پرتشدد واقعات کے بعد، جس میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک اور غزہ میں اسرائیلی بمباری سے کم از کم 28 فلسطینی جاں بحق ہوئے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والا جنگ بندی منصوبہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔

امریکی سفارتکاروں، بشمول صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پیر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی، جس کا مقصد جنگ بندی کو دوبارہ بحال کرنا اور فریقین کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا تھا۔ لیکن زمینی حقائق، جاری تشدد اور فریقین کی باہمی بداعتمادی کے باعث جنگ بندی کا مستقبل غیر یقینی دکھائی دیتا ہے۔


صدر ٹرمپ کا سخت موقف: "ضرورت پڑی تو ختم کر دیں گے”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ جنگ بندی کو محفوظ بنانے کے لیے "کئی محاذوں پر کام کر رہی ہے۔” انہوں نے حماس پر تنقید کرتے ہوئے کہا:

"اگر حماس کی قیادت نے خود کو سنبھالا نہیں، تو ہم انہیں ختم کر دیں گے، اگر ضرورت پڑی۔ مگر اس میں امریکی زمینی فوج شامل نہیں ہو گی۔”

صدر ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ حماس کو اندرونی سطح پر قیادت کے بحران کا سامنا ہے، اور اس کے کچھ دھڑے جنگ بندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اس صورتِ حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور اپنے اتحادی اسرائیل کی سلامتی کو ترجیح دے گا۔


جنگ بندی منصوبے کا اگلا اور مشکل مرحلہ

امریکی وفد کا موجودہ دورہ پہلے سے طے شدہ تھا، جس کا مقصد صدر ٹرمپ کے تیار کردہ 20 نکاتی جنگ بندی منصوبے کے اگلے اور زیادہ پیچیدہ مرحلے پر بات چیت کرنا تھا۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں فریقین نے ہتھیار بند کر کے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی تھی، لیکن حالیہ پرتشدد واقعات سے پیش رفت کو شدید دھچکا لگا ہے۔

ذرائع کے مطابق، اگلے مرحلے میں غزہ میں سویلین انتظام کا قیام، تعمیر نو کا آغاز، اور حماس کے جنگجوؤں کا انضمام یا غیر مسلح کرنا شامل ہے— وہ اقدامات جو حماس کے لیے قابل قبول نہیں۔


یرغمالیوں کی واپسی: اسرائیل کی اولین شرط

جنگ بندی کی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یرغمالیوں کی باقیات کی واپسی ہے۔ پیر کے روز، انٹرنیشنل ریڈ کراس نے ایک فلسطینی یرغمالی کی لاش حماس سے وصول کر کے اسرائیلی حکام کے حوالے کی۔ یہ اقدام اگرچہ اعتماد سازی کی طرف ایک قدم ہے، مگر اسرائیل کا کہنا ہے کہ جب تک تمام 20 یرغمالیوں کی لاشیں واپس نہیں ملتیں، وہ اگلے مرحلے میں جانے کے لیے تیار نہیں۔

نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق، حماس کے پاس مزید پانچ یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں جنہیں جلد واپس کیا جا سکتا ہے، تاہم شدید بمباری اور غزہ میں وسیع تباہی کے سبب باقی 15 لاشوں کی بازیابی ایک بڑا چیلنج ہے۔


حماس کا ردِعمل: قاہرہ میں مذاکرات، مگر غیر ملکی مداخلت کی مخالفت

حماس نے تصدیق کی ہے کہ تنظیم کے جلا وطن رہنما خلیل الحیہ قاہرہ میں جاری مذاکرات میں شرکت کریں گے، جن میں جنگ بندی کے طریقہ کار اور زمینی انتظام پر بات چیت ہو گی۔

تاہم، حماس کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی منصوبے کے اس حصے کو مسترد کرتی ہے جس میں غزہ میں کسی غیر ملکی یا بین الاقوامی سویلین انتظام کا قیام شامل ہے۔ حماس کا مؤقف ہے کہ:

"غزہ کے عوام اور مزاحمتی گروہوں کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہم کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔”

یہ مؤقف معاہدے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اور اس سے امریکہ کی ثالثی مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔


نائب صدر جے ڈی وینس کا دورہ اسرائیل

صورتحال کی سنگینی کے پیشِ نظر، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس منگل کو اسرائیل پہنچ رہے ہیں، جہاں ان کی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات متوقع ہے۔ ملاقات میں علاقائی سیکیورٹی، ایران کا اثرورسوخ، اور جنگ بندی منصوبے کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ:

"ہم اپنے دفاع کا ہر ممکن حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر حماس امن کا راستہ اپناتی ہے تو ہم تیار ہیں، ورنہ ہم ہر قسم کے اقدام کے لیے بھی تیار ہیں۔”


تجزیہ: جنگ بندی کی بحالی — ایک طویل اور کٹھن سفر

تجزیہ کاروں کے مطابق، موجودہ صورتحال میں جنگ بندی معاہدے کا بحال ہونا آسان نہیں۔ میدانِ جنگ کی تلخ حقیقتیں، فریقین کی باہمی بداعتمادی، اور عوامی دباؤ نے سفارتی کوششوں کو کمزور کر دیا ہے۔ امریکی قیادت کو نہ صرف فوری طور پر جنگ بندی قائم رکھنی ہے بلکہ اس کے پائیدار حل کے لیے ایک قابلِ قبول فریم ورک بھی دینا ہو گا۔

تجزیہ کار دانیال رزاق کے مطابق:

"جنگ بندی کا پہلا مرحلہ تو طے ہو گیا، لیکن اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے۔ جب تک حماس اور اسرائیل دونوں اس بات پر متفق نہیں ہوتے کہ غزہ کے مستقبل کا تعین کس کے ہاتھ میں ہو گا، تب تک کسی بھی معاہدے پر مکمل عملدرآمد ممکن نہیں۔”


نتیجہ: "امن کا خواب یا ایک اور سفارتی سراب؟”

غزہ میں حالیہ دنوں کی صورتحال نے ثابت کر دیا ہے کہ امن کی طرف جانے والا راستہ نہ صرف پیچیدہ ہے بلکہ ہر قدم پر خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں جاری کوششیں اس وقت ایک بڑے امتحان سے گزر رہی ہیں، اور یہ سوال پھر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا خطے میں واقعی کوئی پائیدار امن ممکن ہے یا یہ محض ایک اور سفارتی سراب ہے جو ماضی کی طرح وقت کے ساتھ تحلیل ہو جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button