پاکستاناہم خبریں

پاکستان لاہور: علماء و مشائخ کا متفقہ اعلامیہ، بے گناہ انسانوں کے قاتلوں کے خلاف دفاعِ وطن اور ریاستی اقدام کی حمایت شرعی واجب

اسلام نے جان و مال اور سرزمین کے تحفظ کو بنیادی فریضوں میں شمار کیا ہے اور اس تناظر میں ریاست کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر جائز اقدام کرنے کا حق حاصل ہے

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوزکے ساتھ

لاہور: پاکستان علماء کونسل اور لجنۃ العلماء کونسل کے زیر اہتمام لاہور میں منعقدہ پیغامِ پاکستان علما و مشائخ کنونشن میں شریک تمام مکاتبِ فکر کے علماء و مشائخ نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ جائز دفاع اور انسانیت کے تحفظ کے لیے ریاست اور مسلح افواج کا ساتھ دینا شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اجلاس کی صدارت چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کی۔

اعلامیے میں واضح کہا گیا ہے کہ جو شخص، جماعت یا ملک بے گناہ انسانوں کے قتل میں ملوث ہو اور مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہو تو اس کے خلاف دفاعِ وطن اور جہادِ دفاعی شرعی لحاظ سے واجب قرار پاتا ہے۔ اس امر پر زور دیا گیا کہ ریاست کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین، شہریوں اور حدود و سلامتی کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کرے، اور ایسے اقدامات کی علما، مشائخ اور عوامی نمائندگان کی جانب سے بھرپور تائید و حمایت کی جائے گی۔

اعلامیہ کے کلیدی نکات

اعلامیے میں شامل اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:

  • دفاعِ وطن فریضہ: پاکستان کی مسلح افواج اور سلامتی کے اداروں پر واجب ہے کہ وہ سرحدی خلاف ورزیوں اور حملہ آور عناصر کے خلاف مؤثر کاررواٸیاں کریں۔

  • عوامی یکجہتی: پاکستان کی عوام، علما اور مشائخ اپنی مسلح افواج اور سکیورٹی اداروں کے شانہ بہ شانہ ہیں اور ہر سطح پر ریاست کے اقدامات کی حمایت کریں گے۔

  • غیر ملکی مداخلت کی یکساں مذمت: سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے کا ماخذ خواہ افغانستان ہو، ہندوستان ہو یا کوئی اور ملک، اس کے خلاف ریاست کے اقدامات کی مکمل تائید کی جائے گی۔

  • دہشت گردی کی سخت مذمت: کسی بھی صورت بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے، مسلم یا غیر مسلم ملک میں دہشت گردی پھیلانے، یا خود کش حملہ آوروں کی حمایت کو شرعی، اخلاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے ناقابل قبول قرار دیا گیا۔ جو بھی ایسے عناصر کی حمایت کرے گا وہ قاتلوں اور دہشت گردوں کا ساتھی شمار ہوگا۔

  • قانون اور شرع کا احترام: اعلان میں یہ بھی زور دیا گیا کہ ریاستی کارروائیاں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، غیر جانبدارانہ اور انسانی حقوق کے اصولوں کے تحت ہونی چاہئیں تاکہ تحفظِ وطن کے ساتھ ساتھ انصاف اور شفافیت قائم رہے۔

کانفرنس کا پس منظر اور شرکاء

محکمہ علماء کونسل اور لجنۃ العلماء کونسل کے اشتراک سے منعقدہ اس کنونشن میں ملک بھر سے معروف علما، مشائخ، مذہبی رہنما، حقائق نگار اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک تھے۔ صدرِ کانفرنس حافظ طاہر محمود اشرفی کے علاوہ متعدد نمایاں علماء نے خطاب کیا اور جمع شدہ شرعی دلائل و فقہی مباحث کے بعد مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں سرکاری نمائندگان، انسانی حقوق کے اداروں اور سکیورٹی تجزیہ کاروں کی مشاورتی شرکت بھی نوٹ کی گئی۔

علما کے مقاماتِ نظر

اجلاس میں مختلف علماء نے اپنے نقطۂ نظر میں مشترکہ باتیں کیں، جن میں خاص طور پر درج ذیل نکات سامنے آئے:

  • بعض علماء نے واضح کیا کہ اسلام نے جان و مال اور سرزمین کے تحفظ کو بنیادی فریضوں میں شمار کیا ہے اور اس تناظر میں ریاست کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر جائز اقدام کرنے کا حق حاصل ہے۔

  • فقہی دلائل کے حوالہ سے کہا گیا کہ جہادِ دفاعی کی شرائط اور حدود موجود ہیں اور اگر غیر ریاستی یا غیر ملکی قوتیں کسی مسلم ملک کی خودمختاری یا شہریوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈالیں تو دفاعِ وطن شرعی طور پر جائز و ضروری ہے۔

  • امن و استحکام کے فروغ، انسانی حقوق کے تحفظ اور جنگی حالات میں معصوم شہریوں کی حفاظت کے حوالہ سے رہنمائی اور مشورے بھی زیر بحث رہے۔ علما نے زور دیا کہ ریاست کی کاروائی میں ہوش مندی، شفافیت اور قانون کا مکمل خیال رکھا جائے تاکہ شہری تحفظ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور شرعی احکامات کی پاسداری بھی یقینی بنائی جا سکے۔

ریاستی اور عوامی مشترکہ موقف کی اہمیت

کانفرنس میں شریک مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ امن و سلامتی کے کسی بھی اقدام کے کامیاب نفاذ کے لیے ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ علما و مشائخ عوامی نفوذ اور ہر طبقات تک رسائی کے سبب ایک پل کا کام انجام دے سکتے ہیں تاکہ کسی بھی غلط فہمی یا انتشار کی صورت میں حالات قابو میں رہیں۔ علما نے مذہبی رہنماؤں کا کردار امن، تحمل اور قانون کی بالادستی کے فروغ میں معاون قرار دیا۔

بین الاقوامی اور علاقائی اثرات

اعلامیہ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ سرحدی تنازعات اور دہشت گردانہ سرگرمیاں علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہیں اور ان کے تدارک کے لیے بین الاقوامی قانون، سفارتی اقدامات اور علاقائی تعاون کو فروغ دینا ضروری ہے۔ علما نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق اور عالمی امن کے تقاضوں کے مطابق مسائل کے حل میں مثبت کردار ادا کرے۔

قومی ردعمل اور آئندہ لائحہ عمل

کانفرنس کے شرکاء نے چند عملی سفارشات بھی سامنے رکھیں جن میں شامل ہیں:

  1. عوامی آگاہی مہمات: مذہبی اور معاشرتی رہنماؤں کے ذریعے عوام میں امن، رواداری اور قانون کی پاسداری کی تعلیم کو فروغ دیا جائے۔

  2. ریاست اور علما کے درمیان مستقل رابطہ کاری: کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری اور مؤثر رابطے کے لیے ایک مستقل فورم یا مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

  3. قانونی اور اخلاقی فریم ورک: ریاستی کاروائیوں میں شفافیت اور انسانی حقوق کے اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے قانونی میکانزم مضبوط کیے جائیں۔

  4. بین المذاہب و بین الاقوامی مکالمہ: علاقائی امن کے فروغ کے لیے مذہبی و سفارتی سطح پر بات چیت کو تیز کیا جائے۔

اختتامی کلمات

چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی نے اجلاس کے اختتام پر کہا:
“ہم اسلام کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق انسانی جان و مال کے تحفظ کو مقدم جانتے ہیں۔ ریاست کا ساتھ دینا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا سب کا فرض ہے۔ دہشت گردی، قتلِ عام اور بے گناہ شہریوں کے خلاف ہر قسم کی حمایت شرعاً ممنوع ہے اور ہم بین الاقوامی امن کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے تیار ہیں۔”


نوٹ برائے قارئین

یہ بیان اور اعلامیہ ایک مذہبی و اجتماعی مؤقف کی ترجمانی کرتا ہے جو اس مخصوص کنونشن میں شرکت کرنے والے علما و مشائخ نے مشترکہ طور پر اپنایا۔ خبر کا مقصد عوام کو کانفرنس کے نتائج اور علما کے موقف سے آگاہ کرنا ہے — اس میں نقلِ کلام اور شرعی تشریحات کانفرنس کی فضا اور شرکاء کے دلائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ ریاستی پالیسی، بین الاقوامی قوانین اور فوجی امور سے متعلق عملی اقدامات متعلقہ اداروں کی جانب سے جاری سرکاری بیانات اور قانونی چینلز کے تحت دیکھے جائیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button