پاکستاناہم خبریں

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کی منظوری دے دی

اس سفارش کی بنیاد تحریک لبیک کی جانب سے پنجاب میں کیے گئے حالیہ پُرتشدد مظاہروں پر تھی۔

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوزکے ساتھ

اسلام آباد: پاکستان کی وفاقی کابینہ نے مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم قرار دینے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔ کابینہ نے ملک میں تحریک لبیک کی پُرتشدد اور مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا۔

پابندی کی سفارش اور وجوہات

پنجاب حکومت نے 17 اکتوبر کو تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی سفارش وفاقی حکومت کو پیش کی تھی، جس پر وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں منظوری دی گئی۔ اس سفارش کی بنیاد تحریک لبیک کی جانب سے پنجاب میں کیے گئے حالیہ پُرتشدد مظاہروں پر تھی۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں پولیس کے ایک ایس ایچ او سمیت پانچ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

تحریک لبیک نے غزہ امن معاہدہ کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب "غزہ مارچ” کا آغاز کیا تھا۔ لاہور میں شروع ہونے والے احتجاج کے دوران پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جس کے بعد مریدکے کے مقام پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان مزید شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں متعدد افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔

کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کا آغاز

مریدکے میں ہونے والے واقعے کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔ پنجاب پولیس کے مطابق اب تک صوبے بھر سے اس جماعت کے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ماضی میں تحریک لبیک پر پابندی

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کی گئی ہو۔ 2021 میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے بھی ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی، تاہم صرف سات ماہ بعد ٹی ایل پی کے احتجاج اور حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد یہ پابندی واپس لے لی گئی تھی۔ اس معاہدے میں تحریک لبیک کی طرف سے آئندہ ملک میں بدامنی اور پُرتشدد کارروائیاں نہ کرنے کی ضمانت دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ کا فیصلہ

وفاقی کابینہ نے متفقہ طور پر تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کی منظوری دی ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں پنجاب حکومت کے اعلیٰ افسران نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور اس موقع پر وفاقی حکومت کو ملک میں تحریک لبیک کی پُرتشدد سرگرمیوں کے بارے میں بریفنگ دی۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ سنہ 2016 میں قائم ہونے والی اس تنظیم نے پورے ملک میں شر انگیزی کو ہوا دی اور مختلف حصوں میں شر انگیزی کے واقعات میں اضافہ کیا۔

کابینہ کی وضاحت

وفاقی کابینہ کے مطابق تحریک لبیک کی پُرتشدد کارروائیاں اور 2021 میں دی گئی ضمانتوں سے روگردانی کے باعث اس جماعت پر دوبارہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ حکومت نے اس بات پر زور دیا کہ ٹی ایل پی کی دہشت گردی اور پرتشدد کارروائیوں کے باعث یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

آئینی تحفظات اور پابندی کی قانونی حیثیت

پاکستان میں وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر سکتی ہے، اگر وہ جماعت ملک کی خودمختاری یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔ سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج شائق عثمانی نے اس حوالے سے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت ملک کی سلامتی یا خودمختاری کو نقصان پہنچاتی ہے تو اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد حکومت کو 15 دن کے اندر سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرنا ہوگا۔ اگر سپریم کورٹ کو یہ ثبوت کافی لگیں تو وہ الیکشن کمیشن کو حکم دے سکتا ہے کہ اس جماعت کو تحلیل کر دیا جائے۔

تحریک لبیک پر پابندی کا اثر

سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں مختلف اوقات میں سیاسی یا مذہبی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی گئیں، لیکن ان پابندیوں کے بعد شدت پسندی یا دہشت گردی میں کمی کی بجائے یہ مسائل مزید پیچیدہ ہوئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہوا ہے کہ چاہے سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی، پابندیاں عائد کرنے کے نتائج ہمیشہ مثبت نہیں نکلے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی یا شدت پسندی کے عوامل پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اور ان مسائل کا حل کبھی حقیقت پسندانہ نہیں رہا۔

ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں

پاکستان میں مختلف اوقات میں سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی۔ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی عائد کی گئی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی، شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی پر بھی مختلف اوقات میں پابندیاں عائد کی گئیں۔ 1971 میں صدر جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی تھی۔

ماضی کی جماعتوں پر پابندی کا اثر

ماضی میں مختلف جماعتوں پر عائد پابندیوں کے نتائج کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے بعد ان جماعتوں نے دوبارہ فعالیت شروع کی اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے عوامل پیچیدہ ہیں، اور ان کے حل کے لیے حکومت کی پالیسیوں کو مزید مضبوط اور جامع بنانے کی ضرورت ہے۔

اختتامیہ

پاکستان کی وفاقی کابینہ کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دینے کی منظوری ایک اہم قدم ہے، جو ملک میں پُرتشدد کارروائیوں کی روک تھام اور امن و استحکام کے قیام کی جانب ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، سیاسی تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے کے لیے اس کے بنیادی اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے، تاکہ ان مسائل کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button