کاروبارتازہ ترین

گرین کلائمیٹ فنڈ کی جانب سے “گلیشیئرز ٹو فارمز” پروگرام کے لیے 25 کروڑ ڈالر کی منظوری — ایشیائی ترقیاتی بینک 3.25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا

برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے کا عمل ہمارے خطے کو درپیش سب سے پیچیدہ ترقیاتی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز

دنیا کے سب سے بڑے ماحولیاتی فنڈ گرین کلائمیٹ فنڈ (GCF) نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ "گلیشیئرز ٹو فارمز” کے نام سے ایک فلیگ شپ ماحولیاتی موافقتی منصوبے کے لیے 25 کروڑ امریکی ڈالر (250 ملین) کی فنڈنگ فراہم کرے گا۔
یہ منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کی قیادت میں شروع کیا جا رہا ہے جس کا مقصد برفانی تودوں (گلیشیئرز) پر انحصار کرنے والے ممالک میں پانی کے انتظام اور زرعی نظام کو مضبوط بنانا ہے تاکہ بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹا جا سکے۔


10 سالہ منصوبہ، 3.25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری

ایشیائی ترقیاتی بینک کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، جی سی ایف کی جانب سے فراہم کردہ فنڈنگ زیادہ تر گرانٹس (امداد) کی صورت میں ہوگی، جب کہ اے ڈی بی آئندہ 10 برسوں میں مجموعی طور پر 3.25 ارب ڈالر کے مساوی سرمایہ کاری کرے گا۔
یہ فنڈز برفانی علاقوں میں پانی کے منصفانہ استعمال، زراعت کے جدید طریقوں، خطرات کی نگرانی اور کمیونٹی سطح پر لچک پیدا کرنے پر خرچ کیے جائیں گے۔


"برفانی پگھلاؤ ہمارے خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے”

اے ڈی بی کی ڈائریکٹر برائے زراعت و خوراک یاسمین صدیقی نے منصوبے کی منظوری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:

“برفانی تودوں کے تیزی سے پگھلنے کا عمل ہمارے خطے کو درپیش سب سے پیچیدہ ترقیاتی چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں ایسے قابلِ توسیع اور سائنسی بنیادوں پر مبنی عملی حل درکار ہیں جو مقامی برادریوں کو موسمیاتی اثرات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دے سکیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ جی سی ایف کی معاونت سے "گلیشیئرز ٹو فارمز” پروگرام خطے کو منتشر اور محدود منصوبوں سے نکال کر ایک جامع، طویل المدتی اور مربوط حکمتِ عملی کی طرف لے جائے گا، جس سے آنے والی نسلوں کی زندگیوں اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے گا۔


نو ترقی پذیر ممالک شامل

یہ منصوبہ اے ڈی بی کے نو ترقی پذیر رکن ممالک پر مشتمل ہے، جن میں شامل ہیں:
آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا، قازقستان، کرغز ریپبلک، پاکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان۔
یہ تمام ممالک اپنی زراعت، مقامی پانی کے نظام اور بجلی کی پیداوار کے لیے برفانی تودوں اور برف پگھلنے سے بننے والے دریاؤں پر انحصار کرتے ہیں۔

منیلا میں قائم بینک کے مطابق، تیز رفتار برفانی پگھلاؤ ان قدرتی ماحولیاتی خدمات، زرعی پیداوار اور مقامی روزگار کے نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں ہر چار میں سے ایک شخص زراعت سے وابستہ ہے۔


چار بڑے دریائی حوض منصوبے کا حصہ

اعلامیے کے مطابق، "گلیشیئرز ٹو فارمز” پروگرام کے تحت گلیشیئرز سے نکلنے والے چار بڑے دریائی نظام شامل کیے گئے ہیں:

  • نارین (Naryn)

  • پیانج (Panj)

  • کورا (Kura)

  • سوات (Swat)

یہ دریا وسطی اور جنوبی ایشیا کے لاکھوں افراد کے لیے پانی، زراعت اور توانائی کے بنیادی ذرائع ہیں۔

اے ڈی بی کے مطابق، تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ افراد اس پروگرام سے براہِ راست مستفید ہوں گے، جن میں کسان، پہاڑی برادریاں اور موسمیاتی خطرات سے دوچار مقامی آبادی شامل ہے۔


پروگرام کے کلیدی نکات

پروگرام کے تحت درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے:

  • موسمیاتی اور گلیشیائی اثرات کا تجزیہ تاکہ حکومتیں سائنسی شواہد کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے بنا سکیں۔

  • پانی کے انتظام اور زراعت میں جدت کے ذریعے کم وسائل کے باوجود زیادہ پیداوار کے قابل ماحول پیدا کرنا۔

  • مانیٹرنگ اور ابتدائی انتباہی نظام کو مضبوط بنانا تاکہ کمیونٹیز گلیشیائی جھیلوں کے اچانک پھٹنے یا طویل خشک سالی جیسے خطرات سے بہتر طور پر نمٹ سکیں۔

  • مقامی حکومتوں اور کسانوں کو موسمیاتی موافقت سے متعلق تربیت اور ٹیکنالوجی فراہم کرنا۔


ماہرین کا ردِعمل

ماحولیاتی ماہرین نے اس فیصلے کو خطے کے لیے ایک سنگِ میل قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں ماحولیاتی تجزیہ کار ڈاکٹر حنا رشید نے کہا:

“پاکستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کے لیے برفانی پانی زندگی کا ذریعہ ہے۔ اگر برف تیزی سے پگھلتی رہی تو مستقبل میں نہ صرف پانی کی قلت بڑھے گی بلکہ زرعی پیداوار اور توانائی کے نظام پر بھی شدید اثرات پڑیں گے۔”

انہوں نے کہا کہ “گلیشیئرز ٹو فارمز” جیسے منصوبے علاقائی تعاون، ڈیٹا شیئرنگ اور مشترکہ منصوبہ بندی کے ذریعے موسمیاتی خطرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔


اختتامی نوٹ

گرین کلائمیٹ فنڈ کا یہ اقدام اس بات کا مظہر ہے کہ عالمی برادری اب موسمیاتی موافقت (Climate Adaptation) کو محض ماحولیاتی نہیں بلکہ معاشی و انسانی بقاء کا مسئلہ سمجھنے لگی ہے۔
اگر منصوبہ کامیابی سے مکمل ہوا تو یہ نہ صرف گلیشیائی خطوں میں پائیدار زرعی ترقی کو فروغ دے گا بلکہ خطے کی پانی کی سلامتی اور غذائی تحفظ کو بھی مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button