پاکستاناہم خبریں

باجوڑ میں بڑی کارروائی — خوارج کی دراندازی ناکام، کمانڈر سمیت 4 ہلاک

ہلاک ہونے والوں میں فتنہ الخوارج کے اہم کمانڈر امجد (عرف مظہیم) بھی شامل ہے، جو جماعت کے سربراہِ شوری کا رکن اور خارجی کمانڈر نور ولی کا نائب بتایا جاتا ہے

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز،آئی ایس پی آر کے ساتھ

پشاور / باجوڑ: پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے 29/30 اکتوبر 2025 کی شب ضلع باجوڑ میں ایک پیش رفت کے دوران ملک کے خلاف دراندازی کی کوشش کر رہے خوارج کے ایک گروہ کو پکڑ کر ناکام بنا دیا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق مقابلے میں گروہ کے چار ارکان ہلاک ہوئے جن میں جماعتِ فتنہ الخوارج کا ایک اعلیٰ کمانڈر امجد (عرف مظہیم) بھی شامل تھا — جسے قومی سطح پر "ہائی ویلیو ٹارگٹ” قرار دیا گیا تھا اور اس پر پچاس لاکھ روپے کا انعام مقرر تھا۔

آپریشن اور مقابلے کی تفصیل

سیکیورٹی فورسز کے مطابق، خوارج کا گروہ پاکستان-افغانستان سرحد کے قریب سے دراندازی کی کوشش کر رہا تھا۔ داخلی معلومات کی بنیاد پر فورسز نے اس شب نفری تعینات کر کے خوارج کی نقل و حرکت کو مؤثر انداز میں ٹریک کیا اور انہیں گھیر لیا۔ فائرنگ کے تبادلے اور ہدفی کارروائی کے نتیجے میں چار خوارج مارے گئے۔ آپریشن کے دوران فورسز نے اپنی ہی ٹکنییکس اور تربیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے دراندازی کی کوشش کو ناکام بنایا۔

فورسز کے بیانات کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں فتنہ الخوارج کے اہم کمانڈر امجد (عرف مظہیم) بھی شامل ہے، جو جماعت کے سربراہِ شوری کا رکن اور خارجی کمانڈر نور ولی کا نائب بتایا جاتا ہے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ امجد نے افغانستان سے پاکستان میں خوارج کی تنظیمی سرگرمیاں اور سرپرستی کو فروغ دیا اور مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی میں ملوث رہا۔

اعلیٰ قدر ہدف (HVT) — امجد کا پس منظر

سیکیورٹی ایجنسیوں نے امجد کو ایک "ہائی ویلیو ٹارگٹ” قرار دیا تھا اور اس کی گرفتاری یا ہلاکت پر 50 لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔ حکام کے بقول امجد نہ صرف باجوڑ اور مہمند میں خوارج کی دراندازی کا منصوبہ ساز تھا بلکہ اس نے سرحد پار قیام پذیر عناصر کے ساتھ رابطے اور معاونت بھی قائم رکھی تھی، جس کے ذریعے وہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو تیز رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔

افغانستان میں قیام پذیر قیادت اور سرحدی تحفظ کے خدشات

سیکیورٹی بیانیہ میں یہ بات بھی زور دے کر رکھی گئی کہ فتنہ الخوارج کی مرکزی قیادت افغانستان میں مقیم ہے اور اسی بیرونی سرپرستی کے تحت یہ عناصر بار بار پاکستان میں دراندازی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس موقع پر سیکیورٹی حلقوں نے عبوری افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یقینی اقدامات اٹھائے تاکہ افغان سرزمین کسی بھی صورت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔

ترجمان نے کہا:

“ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز سرحدوں کے دفاع کے معاملے میں غیر متزلزل ہیں۔ دشمن خواہ کتنی ہی بیرونی سرپرستی سے کام کرے، ہماری قوم اور ادارے انہیں ناکام بنا کر رہیں گے۔”

فورسز کی کارروائیوں کے بعد علاقے کی سینی ٹائزیشن

حکام نے بتایا کہ آپریشن کے فوراً بعد علاقے میں مکمل کلیئرنس اور سرچ آپریشنز شروع کر دیے گئے ہیں تاکہ کسی ممکنہ روپوش عنصر یا معاون کو پکڑا جا سکے۔ اس سلسلے میں فورسز نے وادی باجوڑ اور مہمند میں اپنی نگرانی بڑھا دی ہے اور مقامی سکیورٹی ڈھانچے کے ساتھ مشترکہ چیک پوسٹس اور پٹرولنگ کو فعال کیا جا رہا ہے۔

سیاسی اور سکیورٹی حلقوں کا ردِعمل

وفاقی اور صوبائی سطح پر اس کارروائی کو سلامتی کی کامیابی قرار دیا گیا۔ صوبائی وزراء اور سکیورٹی حکام نے فورسز کی تعریف کی اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ملک کے خلاف سازشیں ناکام بنانے میں فورسز کا ہاتھ مضبوط کریں۔ بعض سیاسی حلقوں نے اس واقعے پر عبوری افغان انتظامیہ کی جانب سے موثر نگرانی نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے عملی کردار ادا کرے۔

ماہرین کا تجزیہ — مستقل حل کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی ضروری

سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرحدی خطے میں بیرونی معاونت یافتہ گروہ اب بھی سرگرم ہیں اور مستقل حل کے لیے صرف فوجی کارروائیاں کافی نہیں۔ ڈاکٹر عتیق شاہ، سکیورٹی تحقیق کار، نے کہا:

“علاقائی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ سفارتی دباؤ، سرحدی نگرانی میں تکنیکی بہتری، مقامی معاشی بحالی اور معلوماتی خفیہ نیٹ ورکس کو توڑنے کی یکجا حکمتِ عملیاں اختیار کی جائیں۔”

عوامی تحفظ اور آئندہ منصوبہ بندی

حکومتی حکام نے مقامی آبادی کو یقین دلایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز قبائلی اضلاع میں تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گی۔ ساتھ ہی انتظامیہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع فورسز کو دیں تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں کو پہلے ہی ناکام بنایا جا سکے۔

خطے پر ممکنہ اثرات

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ کارروائی سرحدی سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے ایک مثبت پیش رفت ہے، مگر مکمل امن کے قیام کے لیے سرحدی عبوری انتظامات، افغان حکومتی شراکت، اور علاقائی تعاون ناگزیر ہے۔ اسی طرح انسانی اور معاشی ترقیاتی منصوبوں کو بھی سیکیورٹی کے ساتھ جوڑ کر چلنا ہوگا تاکہ خوارج کو مقامی سطح پر اثرورسوخ حاصل نہ ہو سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button