
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
لاہور: پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں واقع پاکستان ہارٹی کلچرل اتھارٹی (پی ایچ اے) میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق، ڈائریکٹر انجینئرنگ پی ایچ اے لاہور کو مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر دوہرے عہدوں پر تعینات کیا گیا ہے، جس کے تحت وہ بیک وقت ای ایم ای (Electrical & Mechanical Engineering) اور پی اینڈ ڈبلیو (Planning & Works) دونوں شعبوں کے سربراہ کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔
یہ دوہری تعیناتی، جو قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے، محکمہ کے اندر اختیارات کی غیر معمولی مرکزیت اور مالی بے ضابطگیوں کا سبب بن چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس افسر نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں، ٹھیکوں، اور فنڈز کے اجرا کے فیصلے از خود کیے، جس سے نہ صرف شفافیت متاثر ہوئی بلکہ مبینہ طور پر لاکھوں روپے کے فنڈز میں خوردبرد بھی کی گئی۔
قواعد کی خلاف ورزی
محکمانہ قواعد کے مطابق، کوئی بھی سرکاری افسر ایک وقت میں دو کلیدی عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اس اقدام سے Conflict of Interest پیدا ہوتا ہے اور نگرانی کا نظام غیر مؤثر ہو جاتا ہے۔ ماہرینِ انتظامیہ کے مطابق، ایسی دوہری ذمہ داری کسی بھی سرکاری ادارے میں آڈٹ اور چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو کمزور کر دیتی ہے۔
مبینہ کرپشن کے شواہد
محکمانہ ذرائع کے مطابق، یہ تعیناتی سروس رولز اور قواعد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی ہے، کیونکہ کسی بھی سرکاری افسر کو بیک وقت دو مختلف کلیدی عہدوں پر تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، اس غیر قانونی اقدام کے ذریعے نہ صرف ادارے کے نظم و نسق کو نقصان پہنچا بلکہ مبینہ طور پر لاکھوں روپے کے فنڈز میں خوردبرد اور بے ضابطگیوں کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ افسر نے اپنے دوہرے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹھیکوں کی تقسیم، ترقیاتی منصوبوں کی منظوری، مشینری کی خریداری اور فنڈز کے اجرا جیسے معاملات میں خود فیصلے کیے، جس سے شفافیت کا عمل بری طرح متاثر ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی ترقیاتی اسکیموں میں اوور بلنگ (Overbilling)، غیر ضروری اخراجات اور مشکوک ادائیگیوں کے شواہد ملے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، گزشتہ ایک سال کے دوران پی ایچ اے لاہور میں کئی ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے مخصوص کنٹریکٹرز کو دیے گئے، جن میں سے بعض کے پاس متعلقہ تجربہ یا اہلکاروں کی کمی تھی۔ کئی کیسز میں اوور بلنگ (Overbilling)، غیر ضروری خریداری اور مشکوک ادائیگیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ بعض ٹھیکے ایسے کنٹریکٹرز کو دیے گئے جو مبینہ طور پر مذکورہ افسر کے قریبی حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
محکمہ کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
“اس افسر کے پاس جب سے دوہری ذمہ داری آئی ہے، شفافیت کا عمل تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ کوئی بھی فائل یا ٹھیکہ بغیر ان کی منظوری کے آگے نہیں بڑھتا۔ بعض منصوبوں کی لاگت غیر معمولی طور پر بڑھائی گئی اور ان کا آڈٹ آج تک نہیں ہوا۔”
اعلیٰ حکام کی بے حسی
باوثوق ذرائع کے مطابق، محکمہ کے کچھ ایماندار افسران نے اس غیر قانونی صورتحال پر شکایات اعلیٰ انتظامیہ اور سیکرٹری ہاؤسنگ پنجاب کو بھی ارسال کیں، لیکن ان شکایات کو اب تک دبا دیا گیا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق، مذکورہ افسر کو محکمہ کے اندر موجود بااثر شخصیات کی سیاسی و انتظامی پشت پناہی حاصل ہے۔
شفافیت پر سوالیہ نشان
پی ایچ اے لاہور شہری خوبصورتی اور باغبانی کے منصوبوں کے حوالے سے ایک کلیدی ادارہ ہے، مگر حالیہ برسوں میں وہاں شفافیت، میرٹ اور احتساب کا نظام کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ دوہرے عہدوں کی یہ مثال اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ادارے میں ادارہ جاتی نظم و ضبط (Institutional Discipline) کمزور ہو چکا ہے۔
ماہرینِ بلدیات کے مطابق، ایسے اقدامات نہ صرف ادارے کی ساکھ متاثر کرتے ہیں بلکہ عوامی ٹیکسوں سے حاصل فنڈز کے غلط استعمال کا باعث بھی بنتے ہیں۔
عوامی اور سماجی ردِعمل
شہری و سماجی تنظیموں نے اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لاہور کے مختلف شہری گروپس نے وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکریٹری، اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ پی ایچ اے لاہور میں ہونے والی اس دوہری تعیناتی، مبینہ کرپشن، اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی فوری اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔
“یہ معاملہ عوامی مفاد کا ہے۔ پی ایچ اے کا بجٹ شہریوں کے ٹیکسوں سے چلتا ہے، اگر وہاں دوہری تعیناتیوں کے ذریعے کرپشن ہو رہی ہے تو یہ عوام کے اعتماد کے ساتھ کھلا دھوکہ ہے۔”
قانونی ماہرین کا مؤقف
قانونی ماہرین کے مطابق، اگر کسی افسر کو بغیر باقاعدہ نوٹیفکیشن کے دو کلیدی عہدے دیے گئے ہیں، تو یہ سروس رولز،قوانین، اور آڈٹ رولز کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایسی صورت میں، افسر کے خلاف انتظامی انکوائری، معطلی اور محکمانہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔
نتیجہ
پی ایچ اے لاہور کی یہ صورتحال محکمہ جاتی شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے کر رہی ہے۔ اگر اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہ کی گئیں، تو نہ صرف عوامی اعتماد مجروح ہوگا بلکہ سرکاری اداروں میں قانون سے بالاتر افسران کے لیے خطرناک مثال قائم ہوگی۔



