پاکستاناہم خبریں

پاکستان کا 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت نتائج کی امید کا اظہار، افغان طالبان سے دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کا مطالبہ

پاکستان نے ان مذاکرات میں اپنی واضح پوزیشن کو برقرار رکھا اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز،فارن آفس کے ساتھ

اسلام آباد: پاکستان نے 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے اگلے دور سے مثبت نتائج کی امید ظاہر کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ طالبان حکومت کو اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہوگا۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی نے ایک ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور افغان طالبان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان کے سیکیورٹی خدشات کو دور کرے گا۔

استنبول مذاکرات کی تفصیلات

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور 30 اکتوبر کو استنبول میں اختتام کو پہنچا۔ انہوں نے بتایا کہ ان مذاکرات میں پاکستان نے خوش دلی اور مثبت نیت کے ساتھ حصہ لیا۔ مذاکرات ابتدائی طور پر دو دن کے لیے طے کیے گئے تھے، مگر طالبان حکومت کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کی سنجیدہ کوشش میں پاکستان نے بات چیت کو چار دن تک جاری رکھا۔

طاہر اندرابی نے مزید کہا کہ پاکستان نے ان مذاکرات میں اپنی واضح پوزیشن کو برقرار رکھا اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، "پاکستان مزید کسی کشیدگی کا خواہاں نہیں ہے، مگر طالبان حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔”

پاکستان کے سیکیورٹی خدشات اور افغان سرزمین پر دہشت گردی

پاکستان نے گزشتہ چار سالوں سے افغان طالبان حکومت پر مسلسل زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں کرے۔ طاہر اندرابی نے کہا کہ پاکستان نے طالبان حکومت کو فتنہ الخوارج (تحریک طالبان پاکستان) اور فتنہ الہندوستان (بلوچستان لبریشن آرمی) کی اعلیٰ قیادت کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے قابلِ تصدیق معلومات فراہم کیں، مگر ماضی میں طالبان کی جانب سے بار بار یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ اکتوبر میں افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی علاقوں پر بلااشتعال حملے کیے گئے، جس کے بعد پاکستان نے ان اشتعال انگیزیوں کا بھرپور جواب دیا۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے اپنے سرحدی علاقوں کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے ہیں اور اس کے لیے پاکستان اپنی خودمختاری اور شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

پاکستان کا موقف: امن کی خواہش اور سیکیورٹی کی حفاظت

طاہر اندرابی نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، تاہم اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ افغان طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات کریں تاکہ پاکستان کی سیکیورٹی کو درپیش خطرات کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا، "پاکستان کے لیے اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کے لیے تمام آپشنز محفوظ ہیں، اور اگر افغان طالبان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہوتے تو پاکستان کو اپنے دفاع میں مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔”

قطر اور ترکیہ کا تعمیری کردار

پاکستان نے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کی تعریف کی ہے جو اس مذاکراتی عمل میں ثالث کے طور پر شریک ہیں۔ طاہر اندرابی نے کہا کہ ان ممالک کی کوششوں کی بدولت مذاکرات کے دور کامیابی کی طرف بڑھنے کی امید ہے۔ پاکستان نے توقع ظاہر کی ہے کہ قطر اور ترکیہ مذاکرات کے اگلے دور میں بھی اپنے کردار کو جاری رکھیں گے اور دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کریں گے۔

مستقبل کی سمت: 6 نومبر کے مذاکرات کی اہمیت

پاکستان نے 6 نومبر کے مذاکرات سے مزید مثبت پیشرفت کی امید ظاہر کی ہے، جس میں طالبان حکومت سے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اپنے مفادات اور سیکیورٹی کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور طالبان حکومت کو اپنے وعدوں پر عملدرآمد کر کے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گی۔

پاکستان نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر طالبان حکومت اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتی تو پاکستان کو اپنے اقدامات میں تبدیلی کرنی پڑے گی اور وہ اپنے دفاع کے لیے ہر آپشن محفوظ رکھے گا۔ مذاکرات کا یہ دور نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی توقع کی جا رہی ہے، بلکہ پورے خطے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کے لیے بھی ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی: علاقائی امن اور سیکیورٹی کا عزم

پاکستان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کی خارجہ پالیسی کا مقصد نہ صرف علاقائی امن کا قیام ہے بلکہ اس کے لیے اپنے تمام وسائل اور حکمت عملیوں کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری سے بھی توقع کی ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کی حمایت کرے گی اور طالبان حکومت کو اپنے وعدوں کی تکمیل پر دباؤ ڈالے گی۔

پاکستان کی حکومتی پوزیشن واضح ہے: امن کی خواہش برقرار ہے، مگر اپنی خودمختاری، سیکیورٹی، اور شہریوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی سمجھوتے کی صورت میں پاکستان کے لیے تمام آپشنز کھلے ہیں۔ 6 نومبر کے مذاکرات میں نتائج کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہ بنانے سے کب تک باز آتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button