
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کےساتھ
اسلام آباد / ایبٹ آباد: پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعہ کو ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاکستان کی افواج کسی بھی بیرونی جارحیت کا “سخت اور فیصلہ کن” انداز میں جواب دیں گی۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور اسلام آباد کی طرف سے کابل پر متعدد معاملات میں تشویش کا اظہار جاری ہے۔
خطاب اور بنیادی پیغام
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کی جامعات کے طلبہ اور اکیڈمک حضرات سے خطاب میں کہا کہ “افواج پاکستان دفاعِ وطن کے عہد کی پابند ہیں اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور فیصلہ کن انداز میں دیا جائے گا۔” ان کے مطابق پاک فوج نے ملک میں دہشت گردی، خاص طور پر فتنۃِ الخوارج کے خلاف مؤثر اقدامات کیے ہیں اور وہ قوم کے دفاع کے لیے ہر ممکنہ تیاری رکھتی ہے۔
اس ملاقات میں موجودہ سیکیورٹی صورتحال، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اور “معرکۂ حق” نامی آپریشن پر بھی تبادلۂ خیال گیا، اور حاضرین نے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
پس منظر: کشیدگی اور حالیہ واقعات
اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد کی دیرینہ تشویش یہ ہے کہ بعض دہشت گرد گروپ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملے کر رہے ہیں؛ اسلام آباد بارہا مطالبہ کر چکا ہے کہ افغان حکومت یا طالبان ایسی کسی بھی سرزمین کو ان گروپوں کے استعمال کے لیے بند کریں۔ طالبان عموماً ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں، تاہم دونوں جانب سے بیانات اور جوابی کارروائیوں نے خطے میں تناؤ برقرار رکھا ہے۔
رواں سال مئی میں پاکستان کو پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ بھی شدید کشیدگی کا سامنا رہا — ایک دورانیہ جسے کئی مبصرین دہائیوں کی بدترین کشیدگی قرار دیتے ہیں — اور چار روز تک جاری رہنے والے شدید تصادم کے بعد امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی طے پائی تھی۔ یہ تجربہ اس بات کی یاددہانی بھی ہے کہ سرحدی تناؤ کتنی تیزی سے شدت اختیار کر سکتا ہے اور بیرونی ثالثی کا کیا کردار ہو سکتا ہے۔
“معرکۂ حق” اور مسلح افواج کی کارروائیاں
بیان میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ پاک فوج نے اپریل 22 کو پہلگام حملے سے لے کر 10 مئی تک جاری آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کے خاتمے تک کے مرحلے کو ’معرکۂ حق‘ کا نام دیا تھا۔ پاک فوج کے مطابق اس آپریشن اور دیگر کارروائیوں کا مقصد اندرونی سیکیورٹی کو مضبوط کرنا اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا تھا۔
طلبہ و اکیڈمکس سے ملاقات: تاثر سازی اور معلوماتی خلاء کا ازالہ
ایبٹ آباد کی جامعات کے طلبہ و اساتذہ نے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کے بعد کہا کہ اس گفتگو نے ان کے ذہن میں پاک فوج اور قومی و صوبائی حالات کے بارے میں پائی جانے والی بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد دی۔ حاضرین میں موجود ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اکرام اللہ خان نے مسلح افواج کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ “پاک فوج کا عزم ان کی حب الوطنی کی علامت ہے۔” ڈاکٹر اکرام اللہ نے یہ بھی کہا کہ دہشت گرد عناصر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسی صورتِ حال میں “صحیح اور قابلِ اعتماد معلومات” کی فراہمی انتہائی ضروری ہے۔
حکومتی موقف، دفاعی اشارے اور ممکنہ نتائج
پاک فوج اور حکومت کی جانب سے مستقل طور پر یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ امن اولین ترجیح ہے مگر قومی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ چیف آف دی آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 21 اکتوبر کو بھی کہا تھا کہ پاکستان کی سرحدی سالمیت کی کسی بھی خلاف ورزی کا جواب “سخت اور فیصلہ کن” انداز میں دیا جائے گا — ایک پیغام جو اب آئی ایس پی آر کے سربراہ نے دوبارہ دہرا دیا ہے۔
اس طرزِ بیان کا مطلب عوامی اور سفارتی دونوں سطحوں پر دو چیزیں ہیں:
پاکستان اپنی دفاعی تیاری اور ردعمل کے اختیار کو عوامی طور پر واضح رکھے گا، تاکہ دشمن فریقین کو خبردار کیا جا سکے۔
ساتھ ہی یہ پیغام خطے اور عالمی برادری کو بھی روانہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان امن کی خواہش مند ہے مگر اس کی سرحدی سالمیت قابلِ بحث نہیں۔
ماہرین کی عمومی رائے (عمومی تناظر)
تجزیہ نگاروں کا عمومی خیال ہے کہ ایسے بیانات ایک جانب قومی حوصلہ بلند کرنے اور دشمن کو ڈس انکمفرٹ کرنے کے لیے ہوں تو موثر ثابت ہو سکتے ہیں، مگر طویل مدتی امن و استحکام کے لیے عسکری پیغامات کے ساتھ سفارتی مصروفیات، تزویراتی مذاکرات اور اعتماد سازی کے اقدامات بھی ضروری ہوتے ہیں۔ علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے والے ممالک (جیسے کہ قطر اور ترکی جن کا ذکر پچھلے مذاکرات میں آیا تھا) کا مثبت کردار برقرار رہنا بھی اہم ہے۔
آئندہ منظرنامہ: صورتحال پر نظر
حالیہ پیغامات — چاہے وہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کے تقریر کے ذریعے ہوں یا چینلائزڈ سفارتی کوششوں کے ذریعے — اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ صورتِ حال نازک ہے۔ اگر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف حملے جاری رہے یا تعمیری اقدامات میں تاخیر ہو تو اسلام آباد واضح طور پر مزید سخت اقدامات کا حق اپنے لیے محفوظ رکھتا ہے۔ دوسری طرف، اگر مذاکرات اور ثالثی کے ذریعے اعتماد سازی کے اقدامات جلدی عمل میں آئے تو دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی کم ہونے اور باہمی تعاون کی راہ ممکنہ طور پر کھل سکتی ہے۔



