
لبنانی دارالحکومت بیروت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمن وزیر خارجہ کی مشرق وسطیٰ کے اس ملک کی قیادت کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا مرکزی موضوع یہ ہے کہ لبنان کی ایران نواز حزب اللہ ملیشیا کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں کیسے کامیاب بنائی جا سکتی ہیں۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کر کے قطعی طور پر ایک غیر عسکری تنظیم بنانے کی کوششیں اب تک اس وجہ سے تعطل کا شکار ہیں کہ یہ لبنانی ملیشیا ہتھیار پھینک دینے سے تاحال انکاری ہے۔
جرمن وزیر کے دورے کا مقصد
جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول اس وقت مشرق وسطیٰ کے متعد دممالک کا دورہ کر رہے ہیں، جن دوران آج جمعے کو لبنان سے قبل وہ جمعرات کے روز شام میں تھے، جہاں انہوں نے صدر احمد الشرع سے بھی ملاقات کی تھی۔ ان کے اس دورے کا بنیادی مقصد امریکہ کی قیادت میں طے پانے والے غزہ امن منصوبے پر مسلسل عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ علاقائی تائید و حمایت حاصل کرنا ہے۔

یوہان وادے فیہول متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں اور لبنان میں اپنے مذاکرات میں بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ خطے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے لبنان کی ایران نواز ملیشیا حزب اللہ کا غیر مسلح کیا جانا ناگزیر ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے جمعے کے دن بیروت میں پہلے اپنے لبنانی ہم منصب یوسف رجّی سے ملاقات کی، جس کے بعد انہیں ملکی وزیر اعظم نواف سلام اور پھر لبنانی صدر جوزف عون سے بھی علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کرنا تھیں۔
حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ
غزہ پٹی میں حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ شروع ہونے کے بعد حزب اللہ نے لبنان سے اسرئیل پر حملے شروع کر دیے تھے، جن کے جواب میں اسرائیل نے نہ صرف حزب اللہ کے اہداف پر فضائی حملے کیے تھے بلکہ اسرائیلی فوجی دستے لبنان میں داخل بھی ہو گئے تھے۔

اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین غزہ کی جنگ کے دوران شروع ہونے والی جنگ میں ایک فائر بندی معاہدہ گزشتہ برس کے آخری ہفتوں میں طے پایا تھا اور اس پر کسی حد تک عمل درآمد جاری ہے۔ تاہم دونوں فریق وقتاﹰ فوقتاﹰ ایک دوسرے پر سیزفائر کی خلاف ورزی کے الزام لگاتے رہتے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں بہت کمزور ہو جانے والی حزب اللہ ملیشیا پر اب داخلی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر دباؤ ہے کہ وہ سال رواں کے آخر تک اپنے ہتھیار پھینک دے، لیکن وہ ایسا کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئی۔
بیروت حکومت کے لیے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا اس لیے ایک انتہائی حساس معاملہ ہے کہ اس ملیشیا کو لبنانی عوام، خاص کر شیعہ آبادی میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ حزب اللہ خود کو اعلانیہ طور پر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی واحد حقیقی طاقت قرار دیتی ہے۔
لبنانی فوج کو ملکی حکومت نے کہہ رکھا ہے کہ وہ حزب اللہ کے غیر مسلح کیے جانے کے عمل کی نگرانی کرے، لیکن فوج کو حزب اللہ کے مقابلے میں کمزور اور غیر تسلی بخش حد تک مسلح سمجھا جاتا ہے۔
لبنانی صدر جوزف عون نے جمعے کے روز اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ بیروت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا جواب مسلسل اور شدید تر فضائی حملوں کے ساتھ دے رہا ہے، اور اس سلسلے کی تازہ ترین کارروئی میں جنوبی لبنان میں ایک موٹر سائیکل سوار ہلاک ہو گیا۔
اسرائیل نومبر 2024ء میں حزب اللہ کے ساتھ طے پانے والے فائر بندی معاہدے کے باوجود آج بھی جنوبی لبنان کے پانچ علاقوں میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ صدر جوزف عون نے رواں ماہ کے وسط میں اس وقت بھی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا، جب امریکی صدر ٹرمپ کی کوششوں سے غزہ جنگ بندی معاہدہ طے پایا تھا۔
جوزف عون نے کہا، ”لبنان اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے مذاکرات پر آمادہ ہے، لیکن ایسی کسی بھی مکالمت کے لیے ضروری ہے کہ آمادگی دونوں طرف پائی جائے اور ایسا نہیں ہے۔‘‘



